Sunday 23 July 2023

Aleesha Baddar Shikwy|Meerab Hayyat| Shiddat Last Episode Part 2| likhar...

 

"ہاں تو آپ کو شرم نہیں آئی۔۔" کہتے ہوئے اس نے فاصلہ بڑھانے کو اس کے سینے پر ہاتھ رکھا جس کی نگاہیں بے تابانہ اس کے نقوش سے لپٹ رہی تھیں۔۔

"جھوٹ بولتے ہوئے۔۔' اس کی آواز لرز اٹھی۔

"جعلی رپورٹ بنواتے ہوئے۔۔" وہ سسکنے کو تھی۔

"کورٹ میں اتنے مردوں کے سامنے میری ذات کو تماشا بناتے۔۔" بولتے ہوئے اس کی آنکھیں بہنے لگیں۔

"آپ تو جانتے ہیں نا کہ آپ باپ نہیں بن سکتے۔۔" وہ بچوں کی طرح رونے لگی۔

"پھر بھی آپ نے مجھے اپنے وکیل سے ذلیل کروایا۔۔۔" وہ اذیت بھری نگاہوں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی جبکہ بدر تو بس اس کا رونا دیکھ رہا تھا۔

"اس۔۔۔س۔۔ نے۔۔ کک۔۔ کیا کہا۔۔ آ۔۔۔ آپ نے سنا نہیں۔۔۔ ججھ۔۔۔جھوٹی رپورٹ دکھا کر کہتا کہ۔۔۔ بب۔۔۔بچہ کس کا ہے۔۔" ہچکیوں کے درمیان شکوہ کرتی وہ اس پل بھول گئی کہ بدر کی مردانگی پر سوال اٹھانے والی وہ خود تھی اور بھول تو وہ خود بھی گیا تھا۔۔ سب۔۔۔ سب کچھ پیچھے رہ گیا تھا۔ علیشہ کے الزامات ۔۔۔ اس کی کم ظرفی۔۔ عدالت میں ہوئی توہین۔۔ ابھی کچھ دیر پہلے پڑا وہ تھپڑ۔۔ سب کچھ اس لمحے جیسے محو ہو گیا تھا۔۔ کچھ واضح تھا تو علیشہ چوہان کا وجود۔۔ اس کے آنسو۔۔ آنکھوں کی اذیت ۔۔ آواز کا بھاری پن۔۔ وہ ہار گیا۔۔ ایک بار پھر۔۔ وہ جسے آج تک کمرۂ عدالت میں بڑے سے بڑا وکیل شکست نہ دے سکا تھا اسے وہ چھوٹی سی لڑکی شکست فاش دے گئی تھی۔ ہاں وہ بیرسٹر بدر لغاری۔۔ جسے دشمن بے بس نہ کر سکے تھے وہ اپنی بیوی علیشہ چوہان کے سامنے بے بس ہو گیا تھا۔


Saturday 22 July 2023

Badar kabhi baap | Meerab Hayyat | Shiddat Last Episode Part 1| likhari ...

 

"جھوٹ مت بولو بدر۔۔۔ آج قتل کردوں گا تمہارا۔۔۔ کیوں سہی تم نے اس کی بکواس۔۔؟؟؟" آگے بڑھ کر اسے بازو سے پکڑتے ہوئے اپنی جانب گھماتا شانزل چلایا۔

"اپنی زبان کو لگام دو۔۔ بیوی ہے وہ میری۔۔۔!" اسے پیچھے دھکا دیتا بدر غرایا۔۔

"بیوی اگر گھٹیا ہو تو اس کے منہ سے نکلے الفاظ کو بکواس ہی کہا جاتا ہے۔۔!" شانزل پہلے سے زیادہ غصے میں بولا تھا۔ بدر نے شدید اشتعال کے عالم میں اس کا گریبان جکڑ لیا۔

"بیوی اگر محبت ہو تو وہ جیسی بھی ہو، جیسا بھی بولے اس کے متعلق بکواس کرنے والے کا منہ توڑ دیا جاتا ہے۔!" اسے جھنجھوڑ کر بولتے بدر نے آخر میں اسکے منہ پر پوری قوت سے مکا مارا تھا۔ شانزل لڑکھڑا کر دو قدم دور ہوا۔ بے یقینی سے اس کی جانب دیکھا تھا جو اس لڑکی کے گہرے وار سے نبرد آزما ہوتا اسی کے لیے پاگل ہو رہا تھا۔

"وہ۔۔۔ جیسی بھی ہے۔۔ میری ہے۔۔ میں اس کے خلاف ایسے الفاظ برداشت نہیں کرسکتا۔۔!" شہادت کی انگلی اٹھاتے ہوئے بدر اسے وارن کرنے والے انداز میں بولا۔ خون چھلکاتی آنکھوں میں غصہ ہلکورے لے رہا تھا۔ شانزل نے نچلا لب دانتوں میں دباتے ہوئے ناک سے نکلتے خون پر ہاتھ رکھ لیا۔

'وہ کم ظرف ہے بدر۔۔!" شانزل نے تکلیف زدہ مدھم لہجے میں اسے جتایا تو بدر کی آنکھوں کی اذیت بڑھ گئی۔

"آج جان گیا ہوں۔۔!" اس کے لب دھیرے سے ہلے۔

"تو پھر یہ بھی جان لو۔۔ کہ یہ جو کم ظرف ہوتے ہیں ناں، ان کے دل کی گلیاں بڑی تنگ و تاریک ہوتی ہیں۔۔ اگر محبت غلطی سے ایسے دل کا رخ کر بھی لے تو یا تو وہاں کی تاریکی سے گھبرا کر بھاگ جاتی ہے یا پھر وہاں کی تنگی میں اس کا دم گھٹ جاتا ہے۔۔!" اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتا وہ اس پل بدر کی اندرونی اذیت کی عکاسی کر رہا تھا۔۔ وہ جتنا مضبوط کمرہ عدالت میں بن آیا تھا اس پل اتنا لگ نہیں رہا تھا ۔

"بکواس بند کرو۔۔۔!" پلکیں جھپک جھپک کر آنکھوں میں امڈتی نمی پینے کی کوشش کرتا وہ بھاری ہوتی آواز میں بولا۔۔

"کم ظرف اگر محبت کر بھی لے تو اس کی انا جلد یا بدیر اس محبت کا قتل کر دیتی ہے بدر۔۔۔!" شانزل کے لہجے میں تھکاوٹ تھی۔بدر نے ہولے سے نفی میں سر ہلایا۔ وہ ایک بار پھر پلٹا۔۔

"محبت مر جاتی ہے بدر۔۔۔ مرجاتی ہے۔۔!" وہ اس کی پشت پر چلایا۔ بدر نے سرعت سے آنکھوں آنکھوں کو رگڑ ڈالا۔ شاید ان میں امڈتی نمی کا رخسار پر پھسلنا اسے گوارا نہیں تھا۔


Tuesday 18 July 2023

Chacha , bhatija romance .. |Sang shikan |Abeera Hassan |Epi 21| Likahri...

 وہ پھولوں کی اس خوشبوں کو سانسوں میں اتارتے ہوئے کھڑکی پر لٹکی ان خوبصورت گلاب کک لڑیوں کو چھو کر دیکھ ہی رہی تھی کہ تبھی روم کا دروازہ کھول کر کوئی اندر داخل ہوا اور روم کو لاک کرکے وہ سیدھا بیڈ کی طرف بڑھا تھا مگر خالی بیڈ کو حیرت سے دیکھتے ہوئے اس نے نظریں گھما کر چاروں طرف دیکھا تھا۔۔ سامنے ہی کھڑکی کے پاس وہ دروازے کی طرف پیٹھ کئے کھڑی تھی۔۔۔ یزدان مسکراتے ہوئے آگے بڑھا تھا اور اس نے امل کے پاس پہنچتے ہی پیچھے سے اسے اپنے بازوؤں کے حصار میں قید کر لیا تھا۔۔

"اسلام علیکم محترمہ امل یزدان بٹ صاحبہ۔۔۔" وہ ساکت کھڑی امل کے گال کو چومتے ہوئے مسکرا کر بولا مگر خاموش کھڑی حرم کے وجود میں کوئی جنبش نہیں ہوئی تھی۔۔ یزدان نے بڑی مشکل سے اپنی مسکراہٹ کنٹرول کی تھی کیونکہ وہ اس کی شرمیلی اور ڈرپوک طبیعیت سے اچھی طرح واقف تھا۔۔۔ تبھی اسے اپنے بازوؤں میں اٹھا کر وہ بیڈ پر لے آیا تھا۔۔۔

"میں نے کہا محترمہ امل یزدان بٹ صاحبہ سلام۔۔۔ کم سے کم سلام کا جواب تو دے دیں۔۔۔"

یزدان نے امل کو بیڈ پر بیٹھاتے ہوئے شوخی سے کہا مگر اس نے سر گھٹنوں پر رکھتے ہوئے اپنا چہرہ چھپا لیا تھا۔۔ تبھی یزدان نے مسکراتے ہوئے اس کا چہرہ اونچا کیا تھا جو آج عام دنوں کے مقابلے بے حد خوبصورت لگ رہا تھا۔۔ وہ سر سے پاؤں تک پور پور یزدان کے لئے سجی تھی۔۔ پیشانی پر سجا خوبصورت ٹیکہ جھومر اور ناک میں پہنی بڑی سے نتھ جو اس کی ٹھوڑی سے نیچے تک لٹک رہی تھی۔۔ یہ آرائش اس کے نازک سے نقوش پر بے حد حسین لگ رہے تھی۔۔۔ یزدان نے دھیرے سے اس کی خوبصورت نتھ کو پکڑ کر اوپر کیا تھا مگر تبھی امل زور سے چیخ پڑی تھی۔۔۔

"آہ۔۔۔ میری ناک ۔۔۔"

وہ پٹ سے آنکھیں کھول کر غصے سے یزدان کو دیکھنے لگی تھی۔۔۔

"افف۔۔۔ سوری سویٹ ہارٹ۔۔۔ بٹ دس از ناٹ رائٹ امل۔۔۔ آپ تو آج کے دن بھی مجھے نظر اٹھا کر دیکھنے کو تیار نہیں ہو رہیں۔۔۔ آپ سے اچھی تو وہ شینا ہے کم سے کم وہ جب جی چاہے بلا جھجھک میرے گلے میں اپنی بانہیں ڈال کر تو کھڑی ہو جاتی ہے۔۔۔ کیا کانفیڈنٹ لڑکی ہے۔۔۔۔"

یزدان مزے سے بولتا ہوا امل کے چہرے کو دیکھنے لگا تھا جس نے شینا کا نام سنتے مشکوک نظروں سے دانی کو دیکھا تھا۔۔۔

"کون شینا۔۔؟؟؟ آپ تو کہتے تھے کہ آپ کی زندگی میں میرے سوا کوئی نہیں ہے ۔۔۔۔۔ پھر یہ شینا کون ہے۔۔۔؟؟؟ آپ مجھ سے ایسے ہی جھوٹ بولتے ہیں یزدان۔۔ اسی لئے مجھے آپ پر یقین نہیں ہوتا۔۔۔ میں جا رہی ہوں اب۔۔۔ آپ جائیں اپنی شینا کے پاس۔۔۔"

وہ غصے سے بولتی اپنی جگہ سے اٹھنے لگی تھی کہ یزدان نے اس کی چوڑیوں سے بھری

تھام کر ایک جھٹکے سے اسے اپنی طرف کھینچا تھا۔۔۔

"شینا ہو یا رینا۔۔۔ میری امل جیسی کوئی نہیں ہے۔۔ اپنی امل کے سامنے میں کسی اور کو دیکھوں تو بھلے ہی آنکھیں پھوڑ دیجیئے گا آپ کہ قسم اف تک نہیں کروں گا مگر شرط بس ایک ہے کہ بدلے میں میری امل کو بھی مجھ سے ویسے ہی محبت کرنی پڑے گی جیسے میں اپنی زندگی ۔۔ اپنی دھڑکن ۔۔ اپنے جینے کی وجہ ۔۔ اپنی بیوی ۔۔ اپنی امل سے کرتا ہوں۔۔۔۔"

یزدان نے کہتے ہوئے امل کے گالوں کو چوما تھا اور امل کی بولتی بند ہوگئی تھی۔۔۔

"آپ کو میں نے بے حد چاہا ہے۔۔۔ بہت محبت کی ہے امل اور آج میں اپنی محبت کو لفظوں میں نہیں بلکہ اپنے عمل سے ثابت کروں گا۔۔۔"





Friday 7 July 2023

Welcome to the game | An dekha tilism | Ammara Fatima | Thriller | Epi 1...

 

وہ ان کو دیکھتی رہی ۔

"welcome to the game

How was your first surprise?

"گیم میں خوش آمدید، پہلا سرپرائز کیسا لگا ؟"

کھڑکی سے آتی تیز دھوپ  اس کے سرد ہوتے چہرے پہ پڑتی اس کے اڑتے رنگ کی گواہ تھی۔اس نے آئینے سے ہی دیکھا۔ وہ کھڑکی جس پہ بھاری پردے تھے اب وہ مکمل کھلی ہوئی تھی۔دونوں پٹ پوری طرح کھلے تھے۔یہاں تک کے پردے بھی ایک طرف تھے۔

وہ بوکھلا کر پھر دروازے کی جانب لپکی۔قدموں میں لڑکھڑاہٹ صاف واضح تھی۔

"مما۔۔ وشمہ۔۔۔! " وہ چیختے ہوۓ واپس نیچے آئی تھی۔

"مما۔۔۔۔ اوپر۔۔۔۔ اوپر۔۔۔ " آنکھوں سے بہتے آنسوں اور پھولے سانسوں میں وہ بمشکل ہی بول پا رہی تھی۔ 


Thursday 6 July 2023

Baqr sach samny ley aya ..|Safer e maan epi 13 Part 1| Mahnoor Ahmed | L...


 

"سب اکٹھے ہیں تو میں بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں ،بہت سوچا ہے میں نے ،اور یہی فیصلہ کیا ہے کہ اب ہم کو شادی..."

" نہیں ہو سکتی"   باقر زمان  نے گلزار احمد کی بات پوری نہیں ہونے دی درمیان میں کاٹ کر بول پڑا تھا سب سے زیادہ چونکا ذوہیب تھا اور اُس کا رنگ بھی بدلا تھا ،باقی سب بھی بے آرام ہوئے تھے ۔       " کہنا کیا چاہا رہا ہے تو؟"    لہجہ خشک ہوا تھا ۔ " یہی کہ اصباح  کی شادی میں ذوہیب سے نہیں کر سکتا...اب جبکہ میں اس کی اصلیت اور ظرف  جان چکا ہوں تو یہ ناممکن ہے کہ..."

"باقر ! ...کُھل کے بات کر،ہوا کیا ہے ،کس اصلیت کی بات کر رہا ہے تو ،پہلیاں نہ بجھوا،سیدھی بات کر"  بیبو جی ! نے مداخلت کی۔                

" خود ہی بتا دو ذوہیب !  تمہیں کتنی نفرت ہے مجھ سے،اس نفرت میں تم کس حد تک جا سکتے ہو...یہاں تک  کہ مجھے جان سے بھی مار سکتے ہو...ہوں"     دانت پیس کر باقر زمان مخاطب تھا ضبط کئیے بمشکل۔

"الزام لگا رہے تم مجھ پر،کچھ نہیں کیا میں نے"  ذوہیب کا لہجہ مستحکم تھا کوئی لچک کمزوری نہیں تھی   وہ ایک دوسرے سے ایسے مکالمہ کر رہے تھے جیسے کمرے میں اکیلے تھے اور کوئی موجود نہیں تھا مگر ایسا تھا نہیں وہاں اور لوگ بھی موجود تھے جو اب بے حد حیران تھے ششدر تھے ان دونوں کی باتوں کو سمجھ نہیں پا رہے تھے۔

"  تو اُس نے  یہ نئی پٹی پڑھائی ہے آپ کو،اس لئیے گئی تھی یہاں سے وہ "  اصباح نے اچانک آ کر بے جا مداخلت کی اور کرخت   بے باک پُر اعتماد لہجہ اپنایا تھا ،ذوہیب کو بہت آسرا ملا تھا  سکھ کا سانس لیا تھا وہ ہلکا سا مسکرایا تھا بھائی بہن آمنے سامنے تھے۔وہ جانتا تھا اصباح اُس کے خلاف کچھ نہیں سنے گی جوابی وار ضرور کرے گی،پہلے تو وہ اُس سے خفا تھا کہ  عین موقع پر اُس نے بھاگنے سے انکار کر دیا تھا مگر اب  اُس کی آمد ذوہیب کو غنیمت لگی تھی۔

"کس کی بات کر رہی ہو تم ؟"  باقر زمان نے پیشانی پہ بل ڈالے  پوچھا۔           " شنایا کی اور کس کی...اسی نے بھیجا ہے ناں آپ کو  ،مجھے اُس پر اعتبار کرنا ہی نہیں چاہیے تھا "      اُسے افسوس تھا اورباقر زمان نے ناسمجھنے والے انداز میں آئبرو اُچکائے  اور چہرہ پھیر کر بیبو جی! کی طرف دیکھا  تو وہ بولیں۔           

" شنایا چلی گئی ہے یہاں سے کل رات"   مگر اس بات پر باقر زمان نے کوئی خاص ری ایکشن نہیں دیا جیسے  اُسے کوئی فرق ہی نہیں پڑا تھا  وہ نارمل ہی رہا  ویسے بھی وہ کون سا اُس کے لئیے اہم تھی جو اُس کے آنے جانے ،ہونے یا  نہ ہونے  سے  اُسے کوئی فرق پڑتا وہ تو کبھی  بھی اُس کے لئیے تھی ہی نہیں،ہوتی تو جانے کا غم یا ملال ہوتا۔

" تم نہیں جانتی  یہ انسان کتنا دھوکے باز ہے فریب کر رہا ہے تمہارے ساتھ...جاؤ یہاں سے "    آرام تحمل سے سمجھایا ۔                  "    بھائی آپ..."  اصباح نے بولنا چاہا۔     "  جاؤ یہاں سے اصباح" وہ گرجا ۔

" باقر..."  بیبو جی! نے ٹوکا  وہ    اگلے ہی پل سنبھلا  بیبو جی! کی موجودگی   نے اُس کے ہاتھ پاؤں اور زبان مقفل کر دی تھی وہ اکیلا ہوتا تو اب تک ذوہیب کا گلا دبوچ چکا ہوتااب تو اُسے مزید غصہ تھا کہ اصباح  اُس کی وجہ سے  سامنے آ کھڑی ہوئی تھی بےباکی پہ اُتر آئی تھی۔اُس کا ضبط بے   ضبط ہونے کے قریب تھا۔

" بات کیا ہے باقر! کیا بولے جا رہا ہے تو؟" 

" شکر کریں میں  صرف بول رہا ہوں ورنہ اس نے  اتنی کسر چھوڑی نہیں کہ اس سے بات کروں" 

"کیا کیا ہے اس نے؟"   نفیسہ نے پوچھا۔

" قاتلانہ حملہ ...مجھ پر،مروانے کی کوشش کی ہے اس نے مجھے،میری زندگی تھی جو گولی میرے سینے کی بجائے بازو میں  لگی۔لیکن بہتر تھا سینے کے آرپار ہو جاتی"  اُس نے اصباح کی طرف دیکھ کر کہادکھ سے۔

"یہ الفاظ نہیں کوئی  دھماکا تھا جو  سب کے ہوش اور  چیتھڑے اُڑا لے گیا تھا   سب  کُھلے منہ اور پھٹی آنکھوں سے باقر زمان کی طرف دیکھ رہے تھے ایک بیبو جی! تھیں جن کی نگاہیں ذوہیب کے پل پل چہرے کے  بدلتے  رنگ پہ تھیں۔     "  کیا کہہ رہا ہے باقر؟"          بیبو جی ! نے ذوہیب سے  دوٹوک پوچھا،وہ بول نہیں سکا خشک لبوں پر زبان پھیری،سب کی نظریں اُس پر جم گئیں   وہ اُس کے جواب کے منتظر تھے اُسے کوفت محسوس ہوئی اُلجھن،وہ  بوکھلایا ہوا گویا ہوا۔         "  جھوٹ بول رہا ہے یہ،میں نے نہیں کروایا وہ تو اُس نے  " ذوہیب حیران تھا باقر زمان کو ساری حقیقت کا علم ہوا کیسے تھا اُنہوں نے تو بڑی پلائننگ سے اطہر کو پھنسایا تھا پھر کیسے؟

" اُس نے کس نے؟...بول ذوہیب "     بیبو جی! نے  پُرتپش انداز میں پوچھا ،وہ نہیں بولا۔

" تو اتنا کیسے گِر سکتا ہےذوہیب! اپنا ہی خون بہانے لگا  شرم لحاظ کہاں رکھ کے بھول گیا ہے تو...کیوں کیا ایسا جواب دے"    

" نہیں کروایا میں نے کتنی بار بتاؤں...وہ تو اُس "

"کس نے...؟"  بات دہرائی بیبو جی ! نے گلزار احمد بھی پوچھنے لگا نفیسہ نے بھی بازو پکڑا وہ گھبرا گیا اتنا طاقت وار تو تھا نہیں اگر ہوتا تو یوں چھپ کے نہ وار کرتا پھرتا۔

" ر...ریا نے کروایا تھا یہ جانتا ہے اچھی طرح" وہ بوکھلاہٹ میں کیا بول گیا تھا یہ اندازہ اُس پل  ذوہیب کو نہیں تھا  مگر وہ اپنے ہی لفظوں کے جال میں پھنس چکا تھا ۔

"ریا ...یہ کون  ہے؟"  نفیسہ نے لب ہلائے تھے۔

" یہ ہے ریا"  اگلے ہی پل باقر زمان  نےہاتھ  سیاہ   چادر کے  نیچے سے نکالا   جو اُس نے   ڈارک    براؤن سوٹ پہ  اُوڑھ   رکھی تھی  جیب سے  کچھ تصویریں نکالیں   اور  ذوہیب پر اُچھال دیں اور پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو  گیا دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپائے۔ایک تصویر اصباح تک پہنچی جس میں ذوہیب نے اُنگلی ریا  کے گلابی لبوں پر رکھی ہوئی تھی اور محبت پاش نگاہوں سے اُسے دیکھ رہا تھا۔اصباح اپنے قدموں پر ٹِک نہیں سکی لڑکھڑائی  تبھی آمنہ آگے بڑھی اُسے تھاما مگر اُس کا سہار ا اصباح نے قبول نہ کیا ،جھٹک دیا اور کھڑے رہنے کے لئیے  دروازے کا سہارا لیا...سب کا یہی حال تھا اُڑی رنگت بے یقینی کی کیفیت اک پل میں کئی رشتوں کا تقدس مان بھرم  ملیا میٹ ہو گیا تھا بیبو جی!کھڑی نہیں رہ سکیں  پیچھے ہٹ کر کرسی پہ ڈھہہ سی گئیں ،وہ جانتی تھیں ذوہیب باقر زمان سے خار رکھتا ہے مگر وہ  نفرت کی اس حد سے واقف نہیں تھیں کہ وہ جان سے مارنے پر تُل جائے گا ...اگلے ہی پل خاموش کھڑے ذوہیب پہ جو پہلا  ہاتھ اُ ٹھا   وہ گلزار احمد کا تھا اور اُس کے بعد نفیسہ نے  روتے   ہوئے اُسے دھکے مار کر کمرے سے نکلا دیا اور خود  وہیں دیوار کا سہارا لئیے کھڑی رونے لگی تھی  سب خاموش تھے بالکل چپ نہ گلزار احمد کچھ بولا نہ ناصر۔نہ اصباح نہ آمنہ...سب ایک دوسرے سے نگاہیں چُرائے کھڑے تھے  الفاظ ختم ہو گئے  تھے یا شائد بے معنی؟

 باقر زمان  نے چہرے پر ہاتھ پھیرا   خود کو سنبھالا اور بیبو جی! کے پاس آیا اُن کے سامنے زمین پر بیٹھ گیا  سر جھکائے اور بیبو جی ! نے کانپتا ہاتھ اُس کے سر پہ رکھ دیا  تھا ...مگر بات یہیں ختم نہیں ہوئی تھی یہ آغاز تھا .

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                     ٭٭٭٭٭٭

Wednesday 5 July 2023

Afreen all alone| Bili ka khana .. |Dharkanon ke sang sang |Epi 3 Part 2...


شیشے کچن ڈور کی جھری سے آتی، کھانے کی مزیدار خوشبو اس کی بھوک کو مزید بڑھارہی تھی۔

شہرام نے نظر گھمائی جب اتفاقا اس کی نظر ڈائننگ ٹیبل پر پڑی، جہاں چینی کے باول میں پڈنگ تھی، جس کے اوپر  فوڈ کلر سے "ھیلو کٹی" لکھا ہوا تھا، جو یقینا بلی کے لئے ہی بنائی گئی تھی، لیکن شہرام کی مت ماری گئی۔۔ اس وقت بھوک کی وجہ سے اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مکمل سلب ھوچکی تھی۔ اس نے بنا سوچے سمجھے، پیالا اٹھایا اور ایک اسپون بھر کر منہ تک لایا۔۔۔۔ مزیدار خوشبو کے ساتھ ساتھ ذائقہ بھی نہایت اعلی تھا۔ جیسے جیسے وہ کھاتا گیا طلب بڑھتی گئی۔۔ اس نے یہ جانا کہ پڈنگ میں چکن اور دوسرے نامعلوم اجزاء شامل ہیں۔

یہ آج تک کے ویسٹرن ریسٹورانٹ میں کھائی گئی تمام پڈنگز سے یکسر مختلف تھی،

بڑی بات یہ کہ اس میں چکنائی کی مقدار بھی کافی کم تھی۔ جو کہ مکمل حفضان صحت کے اصولوں کے مطابق تھی۔۔

اس نے منہ بھر بھر کر چمچ لئے۔۔ اور کچھ منٹ میں ہی پیالہ خالی کردیا۔۔

ٹھیک اس وقت آفرین باقی کھانے کی پلیٹز لئے کچن سے باہر آئی۔

اسے دیکھ کر اس کی آنکھیں سرپرائیزنگ انداز میں کھلیں اور پیاری سی مسکراہٹ نے چہرے کا احاطہ کرلیا۔

"تم واپس آگئے ۔۔ شانی۔۔"

پھر یکدم سے اس کی آنکھیں پھٹی پھٹی سی رہ گئیں۔۔ جب اس نے شہرام کے ھاتھ میں بلی کے لئے بنائی گئی پڈنگ کا پیالا دیکھا۔۔

شہرام نے ساری کھیر کھالی تھی۔

اوھ گاڈ !، یہ تو بلی کا کھانا تھا۔۔۔!

آفرین کی مسلسل نظروں نے شہرام کو تھوڑا سا پزل کیا، وہ دل میں یہ سمجھا کہ آفرین، اسکے اپنی بنائی گئی چیز کھانے کی وجہ سے خوش ہے۔یہ سوچ آتے ہی اس نے ہلکا سا کھانس کر گلا صاف کیا۔

"تم نے جو پڈنگ بنائی تھی بھت ٹیسٹی تھی۔۔"

آفرین بلکل فریز ہوگئی تھی، وہ اس تذبذب میں کھڑی تھی کہ اگر وہ سچ بتائے گی کہ یہ شہرام کے لئے نہیں بلکہ بلی کے لئے تھی، تو یقینا وہ اسے غصہ میں قتل ہی کرلے گا۔۔

آخر کافی دیر تک حساب کتاب کرتے آفرین  زبردستی مسکرائی۔۔ 

Tuesday 4 July 2023

Chacha bhatija ...same same |Sang shikan |Abeera Hassan |Epi 19| Likahri...


 

"حرم آپ کو کراٹے آتے ہیں ناں۔۔۔؟؟؟؟ میرے اشعر کو کراٹے اور کنگ فو سیکھنے کا بہت شوق ہے۔۔۔۔"

یزدان نے بھی جواباً دانت دکھاتے ہوئے کہا جبکہ اس کی بات کا مطلب روفایہ اور حرم کو چھوڑ کر یشعب اور یشار اچھی طرح سمجھ گئے تھے تبھی ان دونوں کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی تھی جبکہ اشعر کا منہ لٹک گیا تھا۔۔۔

"مجھے کراٹے کنگ فو آتے ہیں ناں میں اشعر کو سکھا دوں گی مگر مجھے موئے تھائے فائیٹ کا بھی بہت شوق ہے۔۔ وہ مجھے سیکھنی ہے۔۔۔"

حرم نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔

"وہ میں آپ کو سکھا دوں گا بلکہ پوری ٹریننگ دونگا وہ بھی اشعر کے ساتھ پھر آپ بدلے میں اشعر کو سکھا دیجیئے گا۔۔۔"

یزدان نے مسکراتے ہوئے حرم سے کہا۔۔۔

"بھائی ی ی ی ی۔۔۔۔ مجھے ان "خاتون" سے کچھ نہیں سیکھنا مجھے معاف کر دیں۔۔۔۔"

وہ احتجاً چیخا تھا۔۔۔۔

"خاتون ہوگے تم ۔۔۔ خبردار جو مجھے خاتون کہا تو ابھی منہ توڑ دوں گی۔۔۔۔"

حرم سب کے سامنے لفظ "خاتون" سن کر بھڑک کر بولی ۔۔۔۔

"معافی خاتون۔۔۔۔"

اشعر نے فوراً اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی تھی اور ایک بار پھر سب زور سے ہنس پڑے تھے اور حرم خود بھی اشعر کی مسکین صورت کو دیکھتے ہوئے کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی۔۔۔

 

Ab aimen ko kon bachye ga ..? |Ishq main tum se | Aqsa Rehman |Episode 3...


 

بارش اب تیز ہو چکی تھی۔۔۔ساتھ ہی ٹھنڈی ہوائیں بھی چل رہی تھیں۔۔۔وہ پوری طرح بھیگ چکی تھی۔۔۔

" اوہو۔۔۔۔!! کیا حالت بنا لی ہے تم نے اپنی۔۔۔؟؟ کوئی اپنے ساتھ اتنا ظلم کرتا ہے کیا۔۔۔۔؟؟"

وہ اسے دیکھ کر افسوس سے سر ہلا رہا تھا۔۔۔۔

وہ ایک جھٹکے سے اٹھی اور اس کا گریبان پکڑ لیا۔۔

" تم ۔۔۔تم قاتل ہو میرے باپ کے ۔۔۔۔میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گی۔۔۔قاتل ہو تم۔۔" اس کا گریبان پکڑے وہ چلا رہی تھی۔۔

" دیکھو تو بھیگ گئی ہو تم۔۔۔بخار ہو جائے گا اس ٹھنڈ میں ۔۔میرے ساتھ چلو نا۔۔ میرے بستر میں آرام سے سونا۔۔جو اس دنیا میں ہے ہی نہیں اس کا کیا غم کرنا ۔۔جو تمہارے سامنے ہے اس کو سوچو نا۔۔۔" وہ اس کے ہاتھوں سے اپنا گریبان چھڑاتے ہوئے ہنسا۔۔۔

" تمہیں شرم نہیں آتی ایسی باتیں کرتے ہوئے، آ خر کیا بگاڑا ہے میں نے تمہارا ۔۔۔؟؟ کیوں کر رہے ہو یہ سب۔۔۔۔؟؟" اب وہ روتے ہوئے بے بسی سے بولی۔۔

" کیوں کر رہا ہوں یہ سب ۔۔؟؟ ارے میری جان۔۔۔!! تم اب تک نہیں سمجھی۔۔" وہ اب اس کی بے بسی سے محظوظ ہوا۔۔۔

" خدا کے لیے ۔۔۔خدا کے لیے چھوڑ دو مجھے۔۔۔میرے حال پر ۔۔۔پلیز اسجد۔۔۔مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو۔۔۔" وہ اب اس کے سامنے ہاتھ جوڑے التجا کر رہی تھی۔۔۔

" ایسے کیسے چھوڑ دوں۔۔؟؟ اس رات بھی تم بچ گئی تھی۔۔۔لیکن اب نہیں۔۔اب کون آئے گا۔۔؟؟ ہاں۔۔۔" وہ اب اسے پکڑ کے سیڑھیوں کی طرف کھینچ رہا تھا۔۔۔

" امی۔۔۔امی۔۔۔!!" وہ چلانے لگی۔۔۔

اسجد نے فوراً  اس کے منہ پہ ہاتھ رکھا۔۔

" خبردار جو منہ سے ایک لفظ بھی نکالا تو اچھا نہیں ہوگا تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔" وہ اس کے منہ پہ ہاتھ رکھے ہوئے بولا۔جبکہ وہ خود کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگی۔۔ 

Monday 3 July 2023

Rude Hero| Second Marriage | Tujh se hai hayyat meri | Zahra Ali | Epi 4...

اشتر نے اسٹڈی روم کی لائٹس آف کیں۔۔دروازہ بند کیا، اور اپنی خواب گاہ میں آگیا، سگریٹ ایش ٹرے میں مسل کر وہ بیڈ پر بیٹھا تکیے درست کرتے ہوئے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا لیا، ہاتھ فولڈ کرکے سر کے پیچھے رکھا، اور تصویر نگاہوں کے سامنے کی۔۔وہ نئے سرے سے اس کا جائزہ لینے لگا۔۔۔اس کی خوبصورتی کا وہ اسیر ہوگیا۔۔۔بلیو کلر کے اسکارف سے اس نے سر اچھی طرح سے ڈھکا ہوا تھا۔۔چادر سے خود کو چھپایا ہوا تھا۔۔اشتر کو وہ پہلی نظر میں ہی بھا گئی۔

”مدتوں بعد جا کر کوئی ان آنکھوں کو پسند آئی ہے“ وہ تصویر سے باتیں کرنے لگا۔۔وہ مغرور شہزادہ۔۔۔غصیلا۔۔اکھڑ مزاج۔۔جس کی آنکھیں غضب ڈھاتی تھیں۔۔وہ  بت بنا اس تصویر سے باتیں کر رہا تھا۔

”کوئی اتنا بھی حسین ہوتا ہے۔۔؟“ اس کی آنکھوں میں نہ سختی تھی نہ نرمی تھی، چہرہ البتہ سپاٹ ہی تھا۔۔

”ان۔۔مول۔۔“ بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا اور اشتر نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا۔۔اس کی آنکھوں کو جو چیز بھاتی تھی وہ اسے حاصل کر کے ہی دم لیتا تھا۔۔ اس پری پیکر کو تکتے ہوئے کب اس کی آنکھ لگی اسے پتا نہیں چلا۔۔


Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...