گھپ اندھیرا چھایا
ہوا تھا منہ پر کس کرپٹی باندھی گئی تھی ہاتھ پاؤں رسی میں بندھے تھے وہ بے بس پڑی ہلنے جلنے کی سکت سے بھی محروم تھی
جانے کیا وقت ہوچلا تھا اسے یاد نہیں پڑا تھا وہ جب گھر سے نکلی تو دوپہر ہورہی تھی
بھیا سے ڈھیروں باتیں کرتی وہ ماہی کی طرف جانے کی اجازت پا کر بے فکری سی چلتی جارہی
تھی جب سفید پجارو پاس آکر رکی دو ہٹے کٹے مرد اسے سنبھلنے کا موقع دیے بغیر قابو کر
چکے تھےسر پر پڑتی ضرب ہوش و حواس سے بیگانہ کرگئی حوش آیا تو خود کو اندھیر کوٹھری
میں جکڑے پایا خوف و دہشت اسکے حواس سلب کررہے تھے کیوں۔۔۔ کون ۔۔۔کیسے۔۔۔جیسے ۔۔۔
سوال ذہن میں مچلتے جارہے تھے آنکھیں بہہ بہہ کر خشک ہوچلی تھیں تبھی دروازہ کھلا اور
کوئی اندر آیا ساتھ ہی بتی جل گئ آنے والے کو دیکھ کر مزید سمٹ گئی
وہ تہہ خانے کے اک
چھوٹے کمرے میں تھی جو کہ خالی تھا اک سٹول کے سوا وہاں کوئی شے نہ تھی وہ وہی سٹول
کھینچ کر اسے سامنے بیٹھ گیا
"کیسی ہو" وہ مسکرا کر حال چال پوچھ
رہا تھا اسکے گھور کر دیکھنے پر وہ ہنس پڑا
"عجیب عورت ہو
میری قید میں ہوکر بھی بے خوفی دکھا رہی ہو بس اسی لیے میں نے فیصلہ کر ڈالا کہ تمہیں
اپنا بنا لوں جی بھر کر تمہاری بہادری سے لطف اندوز ہوسکوں "
"کچھ کہنا چاہتی
ہو"
اسے بولنے کے لیے تردد
کرتا دیکھ کر آگے بڑھ کر پٹی کھول دی مہرو نے منہ پر تھوک دیا وہ جہاں تھا وہیں تھم
گیا۔
"تم ایک گھٹیا
انسان ہو دوسروں کی جان لیتے ہولڑکیوں کی عزت سے کھیلتے ہو میں تم سے نہیں ڈرتی
"وہ خوف و غصے کی زیادتی سے کانپنے لگی تھی لیکن لہجے کو کمزور نہ ہونے دیا
اس نے آنکھیں میچ کر
گویا ضبط کیا تھا کوئی سخت تاثر ظاہر نہ کیا
"تمہاری جرت کے
تو ہم معترف ہوگئے بھئ " رومال نکال کر منہ پونچھتا وہ سٹول سے اٹھ کھڑا ہوا
"میں بالکل ایسا
ہی ہوں جیسا تم نے ابھی کہا بے خوف زدہ لوگوں کا پسند کرتا ہوں اور جنہیں میں پسند
کرتا ہوں انہیں یا تو مار دیتا ہوں یا قید کرلیتا ہوں تمہیں مارنا نہیں چاہتا اس لیے
قید کرلیا "
وہ بے حد نارمل طریقے
سے خطرناک باتیں کررہا تھا
No comments:
Post a Comment