ایک
لڑکا وائٹ شرٹ پہ ہاف آستینوں والی واسکٹ پہنے سائیڈ پوز میں کھڑا مسکرا رہا تھا۔
وہ
وجہیہ تھا سیدھا دل میں اترتا تھا۔
وہ
ٹھٹھک گئی ، اس کا محرم تو حسن و جمال سے مالا مال تھا۔ دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے۔
کافی
دیر ہوئی وہ سونے ہی لگی تھی کہ دھڑام سے دروازہ کھلا وہ ڈر کے اٹھ بیٹھی۔
وہ
وجہیہ مرد اس کے سامنے تھا مگر انکھوں میں اجنبیت اور ناگواری تھی۔
اس
نے نظریں جھکا لیں ۔
وہ
دروازہ دھڑام کر کے بند کر گیا۔وہ اور سہم گئی۔
وہ
اس کی طرف بڑھا اس کی دھڑکن تیز رفتار تھی۔ وہ اس کے قریب آیا بازو دبوچ کے اس کو کھڑا
کیا۔
وہ
سسکی ۔
وہ
کچھ بھی بولنے کے بجائے اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا ۔
یہی
ڈر دیکھوں تمھاری آنکھوں میں! وہ طیش سے بولا۔
جج
جی؟ وہ بازو چھڑانے کی کوشش کرنے لگی۔
تم
یہاں کس لیئے آئی ہو ہاں۔ مجھے کھلونے نہیں چاہیں! وہ چیخا۔
آپ
آپ ارام سے بولیں؛ اس نے کان پہ ہاتھ رکھے۔
مجھے
تم میں زرا بھی انٹرسٹ نہیں ہے ، پیسے کے لئے شادی کی ہے ناں تم نے؟ وہ اس کے کان میں
غرایا۔
آپ
غلط! وہ تھوک نگل کر بولنے لگی۔
چپ
باکل چپ! آواز نہ آئے ۔ وہ انگلی سے اشارہ ہر کے بولا۔وہ بیلک تھری پیس میں ملبوس تھا۔
وہ
چپ ہو گئی ۔
اٹھو
یہاں سے اس کمرے میں جاؤ اور جب تک میں نہ بولوں شکل مت دکھانا! وہ دھاڑتا ہوا بولا۔
جی؟
وہ چونکی
سمجھ
نہیں ائی سمجھاؤں تمھیں وہ بیلٹ کی طرف اشارہ کر کے بولا ۔
وہ
ڈر کے مارے بھاری لہنگا اٹھا کر اٹیچ روم میں چلی گئی۔اس کی سسکیاں وہ اسانی سے سن
سکتا تھا۔ یہ سسکیاں اس کے لیے کوڑے کی مانند تھی۔
اس
نے ضبط سے آنکھیں بند کیں ۔
ـــــــــــــــــــــــــــ