Wednesday, 6 December 2023

To day posting list PDF 6 December 2023

                                                                                                                                                                                                                                                                          


                                         




To day posting list PDF

6  December   2023

This is the list where you can easily read our daily novels which we post on that particular day . It will make you to easily find your favourite novels collections . Which novels are added in this day you will come to know and you can download and read online by clicking on  the given  " List " . 
we will try to  to give you such list on daily bases .
These writer has written these novels with their effort and spend lots of time and energy . They are trying hard to give you strong material and heart touching words and characters . 
No doubt some of them is very famous among you but who are new writers try to read them and  appreciate their efforts .

                                       Now here is the list of

November  2023

  
You can download through the links and  can read them .

If you find any issue in download or online reading links please 


watch the video given in link at the end of the links 

Here is her novel to read and to download 


To day posting list PDF


Download Link ( Posting list )


تم نیچے نہیں جاؤ گی اور کیوں اس وقت اس کے ساتھ جارہی ہو باہر۔۔۔

کیا ہوگیا ہے تمہیں میں تمہیں بتانے والی تھی ابھی سرپرائیز تھا۔۔۔

جو بھی ہو تم نیچے نہیں جاؤ گی اس کو میں دیکھ لیتا ہوں۔۔۔محمد احمد نے سرد لہجے میں کہا۔۔۔

ہوا کیا ہے میں کیوں نہیں مل سکتی زاویار سے۔۔۔

کیونکہ وہ ایک غیر ہے اور میں نہیں چاہتا میری بہن کسی غیر کے ساتھ جائے۔۔۔

غیر نہیں ہے وہ ایمن کا شوہر ہے۔۔۔ کمرے سے باہر شہناز بیگم کھڑیں تھیں انہونے محمد احمد کو جواب دیا۔۔۔

واٹ کیا کہہ رہیں ہیں امی آپ۔۔ آپ کو اندازہ ہے کے وہ آپ کے شوہر کا قاتل اور بیٹے کا اغوا کار ہے۔۔۔۔آپ لوگ یہ کیسے کرسکتے ہیں۔۔۔

کیا کہہ رہے ہو حوش میں تو ہو۔۔۔ شہناز بیگم نے تیز لہجہ میں پوچھا۔۔۔

میں حوش میں ہوں لیکن آپ لوگ آپ لوگوں نے یہ کیا کردیا وہ قاتل ہے ہمارے باپ کا ہماری خوشیوں کا محمد احمد نے بھی اپنا سابقہ لہجہ برقرار رکھا۔۔۔

ایمن برف کا مجسمہ بن گئی۔۔۔

شہناز بیگم صوفے پر بیٹھ گئیں اپنا سر ہاتھوں میں دیئے۔۔۔ نہیں۔۔وہ ایسا نہیں۔۔۔

امی وہ ایسا ہی ہے۔۔۔

آپ لوگوں نے نیچے نہیں آنا میں نپٹ لوں گا اس سے۔۔۔محمد احمد کہتا وہاں سے اٹھا۔۔۔

زاویار اتنظار کرتا ہوا لاؤنج میں ہی بیٹھا ہوا تھا۔۔۔

سیڑیھوں سے کسی کے قدموں کی آہٹ پر اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو وہیں دیکھتا رہا۔۔۔

مینے تمہیں کہا تھا نا(مجھے میرا اللہ نکالے گا تم کیا چیز ہو)اور دیکھو آج میں تمہارے سامنے ہوں وہ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اس کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔زاویار خاموش رہا۔۔۔

اٹھو یہاں سے چلے جاؤ تم سے کورٹ میں ہی ملاقات ہوگی۔۔۔محمد احمد نے درشتی سے کہا۔۔۔

مجھے ایمن سے ملنا ہے۔۔۔زاویار بھی اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔

نام مت لو میری بہن کا وہ تم سے ملنا تو دور کی بات ہے وہ تمہاری شکل تک دیکھنا نہیں چاہتی۔۔چبا چبا کر لفظ ادا کیے۔۔۔

دنیا کا کوئی قانون مجھے میری بیوی سے ملنے سے روک نہیں سکتا۔۔۔زاویار نے انگلی اٹھا کر اد کو وارن کیا۔۔۔

کونسے قانون کی بات کررہے ہو زاویار خان وہ جس قانون کی تم نے دھجیاں اڑا دیں ہیں یاں وہ جو تمہارا خود کا بنایا ہوا ہے۔۔۔

میں ایک بار ایمن سے ملنا چاہتا ہوں۔۔۔

چلے جاؤ اس سے  پہلے میں تمہیں گریبان سے پکڑ کر  باہر نکالوں۔۔۔

تم ایسا نہیں کرسکتے تم مجھے میری بیوی سے ملنے سے نہیں روک سکتے۔۔۔زاویار اس پر ڈھاڑا۔۔۔

آواز نیچی رکھو اپنی میں کوئی قیدی نہیں تمہارا۔۔۔

مجھے بس ایک بار ملنے دو۔۔۔

نہیں مینے کہا چلے جاؤ ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔۔ ایمن جو ساری آوازیں اپنے کمرے تک سن رہی تھی اٹھ کر اپنے روم کا دروازہ بند کردیا زور سے۔۔۔آواز نیچے تک آئی۔۔۔




Qaid e zindagi by Ishaal Baloch Episode 21 + All Previous Episodes


>>>>>>>>>>



یہ فلاورز یہاں کون رکھ گیا؟ اس نے بیڈ سے پھول اٹھاتے ہوئے تازہ پھولوں کی مہک اپنے اندر اتارتے ہوئے سوچا تبھی نظر گلابوں میں رکھے چھوٹے سے کارڈ پر گئی۔

آئی ایم سوری سویٹ ہارٹ رات دوستوں نے آنے نہیں دیا پر آج کا دن تمہارے نام . . . . . کارڈ پر لکھے الفاظ پڑھتے ہی اس کا سارا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور چہرے پر مسکراہٹ آ گئی دروازے پر ہونے والی ہلکی سی دستک پر اس نے سر اٹھا کر سامنے دیکھنا زین دروازے میں کھڑا مسکرا رہا تھا۔

آ گئی میری یاد؟ اسے دیکھتے ہی زمل نے غصے سے کہا۔

میرے آنے سے پہلے تو مسکرا رہی تھی تو اب غصہ کیوں؟ وہ مسکراتا ہوا اس کے پاس آیا۔

جب تک تم مجھے آئس کریم نہیں  کھلاؤ گے میرا غصہ کم نہیں ہوگا . . . . . . وہ ہنوز ناراضگی سے بولی۔

اچھا شام میں ریڈی رہنا  . . . . . . زین نے اس کا گال چھوتے ہوئے کہا اور اسے گہری نظروں سے دیکھنے لگا زمل نے فورا اسکا ہاتھ اپنے گال سے ہٹایا۔

پہلے سے بہت خوبصورت ہو گئی ہو . . . . . . وہ اسکا حسین چہرہ دیکھ کر بولا تو زمل نے اسے گھورا۔

بس اب ہو گیا تمہارا فلرٹ . . . .

محبت کو تم فلرٹ کہتی ہو جب چلا جاؤں تو ناراض ہو جاتی ہو اور محبت کی باتیں کروں تو فلرٹ سمجھتی ہو . . . . . . وہ اسکے نرم ہاتھ تھام کر بولا زمل نے اپنے ہاتھ اس کے ہاتھوں سے کھینچے پر زین نے نہیں چھوڑے بلکہ اسکا ہاتھ اپنے لبوں سے لگانے لگا تو زمل نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑایا۔

یہ کیا کر رہے ہو زین ابھی ہماری شادی نہیں ہوئی . . . . . . . زمل نے اسے باور کروایا پر وہ ہنسنے لگا۔

تو کس کرنے سے کیا ہو جاتا تم بھی بہت بیک ورڈ ہو یار اچھا شام کو ریڈی رہنا ابھی مجھے کچھ کام ہے  . . . . . . . وہ زمل کی بات کو نارمل لیتے ہوئے چلا گیا جبکہ وہ زین کے رویے پر حیران ہوئی۔

>>>>


“کیا بکواس ہے یہ؟۔۔۔۔۔تمہاری خاطر میں اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آگئی ہوں اور اب تم مجھ سے یہ کہہ رہے ہو کہ تم مجھے یہاں اکیلا چھوڑ کر واپس پرستان چلے جاؤ گے”؟

“صرف تھوڑی دیر کی بات ہے۔۔۔۔۔میں جلدی واپس آ جاؤں گا”۔ اس نے مقابل ہوکر شائستگی سے کہا۔

“ایک تو تم نے مجھے اتنی خوفناک حویلی میں لا کر کھڑا کر دیا ہے اور اوپر سے اب مجھے یہاں اکیلا چھوڑ کر جانے کی بات کر رہے ہو؟۔۔۔۔۔کیا تم پاگل ہو”؟

“مجھے زیادہ دیر نہیں لگے گی۔۔۔۔۔اور یہاں میں تمہیں اس لیے لایا کیونکہ تمہیں یہاں پر کوئی بھی نہیں ڈھونڈ سکتا”۔

“فار گاڈ سیک!۔۔۔۔مجھے یہاں بالکل نہیں رہنا۔۔۔۔۔تمہارے واپس آنے تک میں ویسے ہی خوف سے مر جاؤں گی۔۔۔۔۔اس لیے بہتر یہی ہے کہ تم مجھے میرے گھر واپس چھوڑ دو”۔

“فلحال تم اپنی دنیا میں ہی ہو۔۔۔۔۔لیکن یہاں سے واپس جانے کی غلطی مت کرنا”۔ اس نے للکارا۔

“کیا مطلب”؟ وہ تیوری چڑھا گئی۔

“اگر تم نے یہاں سے واپس جانے کی کوشش کی تو بالکل نہیں جا پاؤ گی۔۔۔۔۔کیونکہ میں نے اس حویلی کے گرد حصار باندھ دیا ہے۔۔۔۔اگر تم باہر جانے کی کوشش کرو گی تو تمہیں تکلیف پہنچے گی۔۔۔۔۔اور اگر فرض کرو کہ تم یہاں سے باہر چلی بھی گئی۔۔۔۔تب بھی تم اپنے گھر واپس نہیں جا پاؤ گی۔۔۔۔۔کیونکہ تمہارا گھر لاہور میں ہے۔۔۔۔۔یعنی پاکستان میں۔۔۔۔۔۔اور ہم اس وقت ایک ایسے جزیرے پر ہیں جہاں کوئی تمہیں ڈھونڈنے نہیں آئے گا”۔

“یعنی تم مجھے یہاں زبردستی روک کر رکھنا چاہتے ہو”؟

“میں نے تم سے بار بار پوچھا تھا پر تم خود اپنی مرضی سے میرے ساتھ آئی ہو۔۔۔۔۔تو اب جب آگئی ہو تو میری اجازت کے بغیر واپس نہیں جا پاؤ گی”۔

“اوہ! تو یہ تھا تمہارا اصلی روپ”؟ اپنے سینے پر دونوں ہاتھ باندھے وہ بے خوفی سے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھنے لگی۔

“میں نے تم سے پہلے ہی کہا تھا کہ مجھے غلط مت سمجھنا اور مجھ پر اعتبار کرنا”۔

“کیسے کروں میں تم پر اعتبار؟۔۔۔ہمم؟۔۔۔۔۔تم نے مجھے چوراہے پر لا کر کھڑا کر دیا ہے شمائل!۔۔۔۔۔۔نہ میں آگے جا سکتی ہوں اور نہ واپس جا سکتی ہوں۔۔۔۔مجھے بتاؤ کیا میرا قصور صرف اتنا تھا کہ میں تم پر اعتبار کر کے تمہارے ساتھ آ گئی”؟

“پری جان!۔۔۔۔صرف دو تین گھنٹے کی بات ہے۔۔۔۔۔میں پری ماں سے بات کر کے بہت جلدی واپس آ جاؤں گا اور پھر تمہیں اپنے ساتھ لے جاؤں گا”۔ اس کے بازؤں کو تھام کر وہ لہجے میں شیریں مٹھاس لیے ہوئے تھا۔

“اور اگر وہ دونوں نہیں مانے تو”؟

“تو بھی تم واپس نہیں جاؤ گی”۔

“تو پھر کیا ساری زندگی مجھے یہاں اس جزیرے پر اس حویلی میں قید کر کے رکھو گے”؟

“نہیں۔۔۔۔تم سے نکاح کروں گا۔۔۔۔۔اور نکاح کے بعد تمہیں اپنی مرضی سے پرستان لے جاؤں گا۔۔۔۔۔پھر یا تو وہ تمہیں بھی قبول کریں گے اور یا پھر مجھے بھی نکال دیں گے”۔

Ishq e shumail by Soni Mirza Season 2 Episode 1


>>>>>>>>>>>


“ہادی کا نکاح ہو گیا ہے!” زرین بیگم کیلئے بتانا مشکل ہوا تو فاطمہ بیگم نے ہی لب کشائی کی۔

“نکا ہوا ہے؟” تابش اچھل پڑا۔ سوہا نے بس ایک ناگوار نظر اس پر ڈالی۔

“مگر گڈ نیوز پہلے ہماری طرف سے ملی تھی پھر نکا پہلے ان کا کیسے ہوگیا؟ اتنی اچانک؟؟” اس کی حیرت ایسی ٹھوس تھی کہ ایک پل کو سوہا کو بھی اپنی سماعت پہ شک ہوا۔ کیا اس نے “نکاح” غلط سنا تھا؟؟

کولڈ ڈرنک وغیرہ اٹھائے کمرے میں داخل ہوتا عارش ناچاہتے ہوئے بھی مسکرا دیا تھا۔

“توبہ ہے۔۔۔۔ “نکا” نہیں “نکاح! تیسرا نکاح کر لیا ہے اس نے!” خبر واقعی ششدر کر دینے والی تھی۔ ان دونوں کے منہ بھی کھلے رہ گئے تھے۔

“بلکہ اس بےچارے نے کیا’ کیا ہے! اس کی ماں نے ہی زبردستی کروایا ہے۔۔۔۔ تانیا کیلئے اس کی پسندیدگی سے تو ہم سب ہی واقف ہیں! اندازہ لگانا مشکل نہیں اس نے کتنے ہاتھ پیر مارے ہوں گے، لیکن سلام تھا بھابھی کو بھی۔۔۔۔ چاروں طرف گھیر لیا بےچارے بچے کو۔۔۔”

“مگر ایسے بھی کیسے گھیر لیا بےچارے بچے کو؟؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔” شدید حیرت کا شکار وہ اتنا ہی بول پایا۔ سوہا کی آواز حیرت سے گم تھی۔

“کل بھابھی نے اسے فون کیا کہ ماموں زاد کزن کی منگنی ہے۔ عرصے بعد ماں نے خود سے رابطہ کیا تھا تو وہ جذباتی ہو کر چل پڑا، ساتھ’ میں بھی تھی۔۔۔ تانیا کو لانے سے منع کیا تھا، ہادی بھی وقت کی نزاکت سمجھتے ہوئے اسے ساتھ نہیں لے گیا۔ تانی گھر میں ہی پھپھو کے ساتھ تھی۔۔۔۔ وہاں سے ظہیر بھائی اور امی وغیرہ کو بھی اسی بہانے اپنی ماں کے گھر بلوا لیا۔ وہاں سے بھائی اور یہاں سے ہم آگے پیچھے ہی پہنچے تھے اُدھر۔ اب وہاں جا کے عقده کھلا’ کوئی منگنی ونگنی نہیں تھی! ہادی کے نکاح کی تیاریاں تھیں سب! لڑکی والوں کا گھر بھی گلی میں ہی پڑوس میں تھا بالکل اور ہادی کے ننھیالیوں سے کافی اچھے تعلقات بھی تھے۔ بچے اور لڑکیاں بالیاں بےدھڑک دونوں گھروں میں چکر لگا رہے تھے۔ چند ایک قریبی رشتے دار بھی تھے ہادی کے ننھیال کی طرف سے۔ ماں اور باپ کی موجودگی میں اب وہ کیا کرتا؟ سب کو مہمانوں کے سامنے ذلیل ہونے کو چھوڑ آتا؟ یقین کروگے تم لوگ؟؟ وہ بھابھی کے پیر تک پڑ گیا تھا لیکن اس کی ماں نہ مانی! ظہیر بھائی کا تو غصے سے برا حال تھا۔ بھابھی نے اپنا بینک اکاؤنٹ خالی کردیا تھا نکاح کی تقریب پر۔ کھانا، پینا ، دلہن کا سامان۔۔۔۔۔۔ اتنے لوگوں میں انکار کیسے کرتا بچہ؟؟ یوں ہی اٹھ کے آجاتا تو ماں باپ کو مہمانوں کے سامنے ذلت اٹھانی پڑتی! نکاح خواں سر پہ تھا۔ پڑوس میں دلہن بنی لڑکی کی بھی زندگی کا سوال تھا۔ کیسی رسوائی ہوتی اس کی اگر لڑکے والے یوں لوٹ جاتے۔۔۔۔۔۔”






وہ کمرے میں آ رہی تھی جب اچانک اس کی ٹکر ہوئی،

وجدان اسے دیکھ کر مسکرایا تھا،

جبکہ وہ سر پکڑتی نیچے بیٹھنے کی کوشش میں تھی

آپ ایک دفعہ ہی ٹکرا لے، بار بار، ہر بار

مجھے لگتا ہے ہیلمٹ پہننا پڑے گا ورنہ آپ تو شاید مجھ سے ٹکرا ٹکرا کر میرا سر ہی مسل دے گے،

اور آپ اپنی بے فضول بولنے والی عادت سے، میمنی

آپ کی دوست احباب غالباً آپ کو ایسے ہی کسی نام سے مخاطب کرتے ہیں، ہے نہ،

مس میمنی، پھر مجھے لگتا ہے کہ مجھے ائرپوڈز ہمیشہ اپنے پاس رکھنے چاہیے، ورنہ آپ بول بول کر میرے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مفلوج کر دے گی

 جبکہ وہ اس کی حاضر جوابی پر عش عش کر اٹھی تھی

وہ غصہ سے، وہاں سے چلی آئی تھی

بیلکنی میں کھڑی وہ پہلے ہونے والی گفتگو کے بارے میں سوچ رہی تھی جب عروہ کی کال آئی

اس نے فون اٹھا کر کان سے لگایا

اسلام وعلیکم می می کیسی ہو،

میمنی، اس کے کانوں میں وجدان کی آواز گھوم گئی اس نے غصہ سے فون بند کر دیا




..........

ہتے ہیں تہجد بڑی لاڈلی عبادت ہے اپنی ہر بات منوالیتی ہے تم مانگو تو صحیح  وہ دے گا اس کی یہی شان ہے ۔۔۔۔۔

بس مانگنے کا انداز ایسا ہونا چاہیۓ کہ فرش تا عرش اس کی بنائ ہر مخلوق رشک کرے ۔۔۔۔۔۔

یہ جو مخلوق ہے نا ہم سے ڈرتی ہے لیکن جیسے کہ یہ آخری وقت چل رہا ہے ہم تیزی سے آخرت کی جانب بڑھ رہے ہیں تو شیاطین غالب آگۓ ہیں وجہ دین سے دوری ہے اور کچھ نہیں لیکن اگر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھا تو وہ اپنے نیک بندوں کی مدد کرتا ہے پھر چاہے وہ فرعون سے بنی اسرائیل کو نجات دلانا ہو یا پھر طوفان میں نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو بچانا ہو۔۔۔۔ غزوہ بدر ہو یا پھر مچھلی کے پیٹ میں موجود یونس علیہ السلام ہوں۔۔۔۔۔ اس کو جب جب اس کے بندے سچے دل سے پکارتے ہیں وہ مدد بھیجتا ہے لیکن اسے شرک پسند نہیں جب اس سے مدد مانگو تو کسی اور سے مدد کی امید نا لگاؤ۔۔۔۔۔ اپنی جانب سے پوری محنت کرو اور امید بس اس خدا سے لگاؤ۔۔۔۔۔۔ جعفر شاہ نے کافی حد تک عرشیہ کو پرسکون کردیا تھا

*****

دراصل شیطان کی چالوں میں اک اہم چال یہ بھی تھی کہ اس نے انسانوں کے زریعے اک ایسی خیالی دنیا کی تخلیق کی جہاں وہ جیسے چاہتا مومن کے دل سے اللہ کا ڈر نکال دیتا۔۔۔۔۔ پہلے کا مسلمان ایسا نہیں تھا وہ مرنے سے نہیں ڈرتا تھا بلکہ وہ اللہ کے لیۓ جان دے دیتا تھا اور خوشی خوشی شہادت کو قبول کرتا تھا پھر شیطان نے وار کیا اور جہاں دل میں اللہ کی محبت ہوتی تھا وہاں نا محرم کی محبت جگا دی زریعہ کیا تھا فلمیں ڈرامے گانے۔۔۔۔۔۔۔ اب بندہ  خدا۔۔۔۔ محبوب کے بچھڑ جانے پر دنیا کو بھول جاتا ہے بعض لوگ اتنا دکھی ہوجاتے ہیں کہ اپنی زندگی ختم کردیتے ہیں یہ سب کس نے کیا۔۔۔۔ فلموں نے زہن سازی کی ورنہ آجکا انسان جو کسی کو اپنا بخار نہ دے مفت میں وہ کسی کے لیۓ جان کیسے دے دے ۔۔۔۔اگر وہ لڑکی جس کے لیۓ وہ مرنے کو تیار ہے وہی اسے مل جاۓ تو پھر آپ دیکھو تماشہ وہی اسے مارتا بھی ہے اور زلیل بھی کرتا ہے کیونکہ یہاں بھی زہن سازی کردی گئی ہے کہ بھاگی ہوئی لڑکی یا محبت کی شادی کرنے والی لڑکی بدکردار ہے یہ سب کسی نے نہیں کیا یہ سب فلموں ڈراموں کے زریعے ہمارے زہن میں سالوں سے بھرا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔اسی طرح موت کا خوف دلایا گیا کبھی گنڈوں سے تو کبھی بھوتوں سے اب عام آدمی غلط کو غلط کہنے سے ڈرتا ہے کیوں کیونکہ زہن سازی ہوئی ہے کہ ہم عام آدمی ہیں اگر غلط کو غلط کہیں گے تو مارے جائیں گے اور ایسا ہوتا بھی ہے کیونکہ اس گنڈے کی بھی زہن سازی ہوئی ہے کہ جو تمھیں کچھ کہے اس کا منہ بند کروادو۔۔۔۔

*****

پھر آتا ہے حساس ٹوپک۔۔۔۔ اللہ کے نیک بندے تو غاروں میں عبادت کرتے تھے اکیلے عبادت کرتے کہ عبادت میں یکسوئی ہو خلل نا آۓ لیکن بھئ یہاں تو جہاں بندہ اکیلا ہوا وہاں اک ڈراؤنا خیال حاضر۔۔۔۔اک اور بڑی عجیب بات ابھی میرے دماغ میں آئی ہے کیا تم لوگوں نے دیکھا ہۓ اکثر فلموں میں دھوپ جیسے ہی کسی آسیب زدہ شخص پر پڑتی ہے تو کیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اس کا بھوت وہیں مرجاتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اللہ نے دھوپ میں وٹامن ڈی بھی رکھا ہے بلکہ وافر مقدار میں رکھا ہے۔۔۔۔۔ جب زہن کو وٹامن ڈی ملے گا تو وہ اداس یا خوفزدہ نہیں ہوگا جب خوفزدہ ہی نہیں ہوگا تو یہ سب بھاگیں گے ہی نا۔۔۔۔۔لیکن یہاں بھی اللہ کی حکمت چھوڑ شیطان نے اپنی جانب سے ہماری زہن سازی کر لی تاکہ ہم بھٹک جائیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے ہر چیز قبول کرلی ہے ہم ان سے زیادہ ڈرتے ہیں اللہ سے کم ۔۔۔۔یہ تلخ حقیقت ہے۔۔۔۔۔ اگر وہ ہمارے ساتھ ہیں تو اللہ بھی تو ہے ہمارے ساتھ۔۔۔۔۔ کیا وجہ تھی کہ وہ میرے آتے ہی بھاگ گئی۔۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ جانتی ہے وہ مجھے نہیں ڈرا سکتی میں اللہ سے ڈرتا ہوں اسی سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہوں میرے دل میں اللہ کا نور ہے جو مجھے اس سے محبت کرکے ملا ہے وہ یا کوئ اور شیطان اس نور کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔۔۔۔۔۔۔

*********

گھر میں جالے نہیں ہونے چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔تمھیں کیا لگتا ہے صرف اک وہی ہے اور کوئی نہیں۔۔۔۔۔۔ جس گھر میں جالے ہوتے ہیں وہاں سے گزرنے والی اللہ کی دوسری مخلوق قیام کر لیتی ہے اگر رکتی نہیں ہے تو تھوڑی دیر آرام ضرور کرتی ہے اور وہ آرام کہیں اور نہیں جالوں پر کرتی ہے۔۔۔۔۔یہ نحوسیت اسی لیۓ ہیں

*********

جب گھر میں یا کمرے میں داخل ہو تو بس سلام کرو۔۔۔۔۔۔ یقین کرو اللہ کے نبی کی بتائی کوئی بھی بات غیر ضروری نہیں ۔۔۔۔۔۔ سلام کی آواز سنتے ہی شیاطین بھاگ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔

سب سے اہم بات اپنے واش روم کو بند رکھو ان کے دروازہ کبھی کھلا نا چھوڑنا ۔۔۔۔۔جاتے وقت اور آتے وقت دعا ضرور پڑھو اور رات کے وقت کبھی واش روم کو گندا نہ چھوڑو بس اتنا کرلو اس سب سے تاحیات جان چھوٹ جاۓ گی۔۔۔۔۔۔ یہ سب کام میں نے بچپن سے کیۓ ہیں مجھے ان سب کی عادت تھی اور اس کااثر تم سب میری زندگی پر دیکھ سکتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔جعفر شاہ بہت تحمل سے سمجھا رہے تھے


...........

کہانی ارض جبليہ کی۔ کہانی ایک شہزادی کی۔ کہانی رب پر توکل کی۔ کہانی اُن کی جن کا توکل مضبوط ہے۔ اور کہانی اُن کی بھی جن کا توکل کمزور ہے۔
(Islamic and fictional fantasy novelette)

If you have problem in download please click this Below link 



If you have problem in dawn load please click this link belo



No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...