" جسے تم
دھوکے کا نام دے رہے ہو ،وہ تو ایک چھوٹی سی ٹرِک تھی مسٹر باقرزمان ! تم سے آگے نکل کر کامیاب ہونے کی،تمہیں مات دینے کی" ریا نے کانفیڈنس سے کہا اب کمزور پڑنا بے کار تھا وہ
سمجھ چکی تھی شہزاد اُس کے ہاتھ لگ چکا تھا ۔
" مجھ سے آگے نکلنے کا کب سوچا؟" غیر یقینی ہی غیر یقینی تھی ،وہ اپنی کرسی پہ
بیٹھ گیا ۔
" ہمیشہ سے سوچا ہوا تھا ،بس انتظار تھا کہ تمہارا
کوئی دشمن ہاتھ لگے جو میرا ساتھ دے۔پھر مجھے اطہر ہمدانی! مل گیا رقابت کی آگ میں
جلتا ہوا،اور اُس آگ میں وہ تمہیں
جلا دینا چاہتا تھا میں نے تو صرف جلتی پہ تیل ڈالا ہے...اور شہزاد
!دولت کا بھوکا،میں نے اُس کی بھوک مٹا
دی"
" صرف پانچ لاکھ لگائی میرے اعتماد کی قیمت...یہ بھی
شائد زیادہ لگا دی تم نے،کیونکہ سچے جذبوں کی
قیمت دوکوڑی بھی نہیں یہاں"
وہ نفی میں سر ہلاتا ہاتھ میز پہ
رکھے اُسے دیکھنے لگا ۔
" دیکھو باقر !
آپ کے یہ فلسفے لیکچرز جذبے اس جنگ میں کام نہیں آتے،جنگ احساسات سے لڑی نہیں
جاتی ہتھیاروں سے لڑی جاتی ہے "
" جنگ...؟"
No comments:
Post a Comment