اب وہ دونوں آمنے سامنے تھے وہ مبہوت سی
اسے دیکھ رہی تھی اور وہ اندر ہی سورت النور
پڑھ رہا تھا۔
" ماننا پڑے گا
عیسٰی تم پہلے سے بھی کہیں زیادہ خوبصورت اور سحر انگیز ہوگئے ہو"
وہ بنا تاثر کے اسکی شکل دیکھ رہا تھا اتنا
میک اپ اور فٹ رہنے کے باوجود بھی بڑھاپے کے آثار اس پر غالب تھے وہ اپنی نظروں سے
اسے شیطان لگی تھی۔
"ماضی میں
!!!"
"ماضی گزر گیا ہے
لزیانہ ہم حال میں ہیں بہتر یہی ہے کہ تم مجھ سے وہ بات کرو جو تم کرنے کیلئے ادھر
آئی ہو " وہ خشک لہجہ لئے اسکی بات کاٹ کر بولا۔
وہ اسکے چہرے پر در آئی واضح ناپسندیدگی
کو محسوس کر سکتی تھی۔
"ٹھیک ہے پھر حال
ہی کی بات کرتے ہیں اور بات یہ ہے کہ اتنے سال گزرنے کے بعد بھی میں تمھارے سحر سے
نکل نہیں پائی ہوں ، میں چاہتی ہوں کہ ہم پھر سے اپنے تعلقات بڑھائیں اور اس دفعہ
بھی مجھے تمھاری وائف سے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا سب کچھ پہلے کی طرح ہی چلتا رہے گا
اب کے ہم کسی کو بھی پتہ نہیں چلنے دیں گے" لزیانہ نے ٹیبل پر دھرے عیسٰی کے
ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے جیسے یقین دلانا چاہا۔
عیسٰی نے اسکے ہاتھ کو دیکھا اور پھر اسے ،
یہ جہنمی عورت آج بھی اسے حرام کی ترغیب دے رہی تھی جب وہ فلز کے حصار کو توڑ سکتا
تھا تو یہ کیا چیز تھی اسنے سختی سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ کے نیچے سے نکالا اور
کھڑا ہوگیا "جو تم میرے ساتھ کرچکی ہو وہ بھلانا ناممکن ہے آئندہ میرے
راستے میں مت آنا ورنہ تمھارا گلہ دبانے میں مجھے ٹائم نہیں لگے گا
"
وہ دانت چبا کر بولا تھا.
وہ
اسکی بات سنتے شیطانی مسکراہٹ لئے کھڑی ہوئی تھی " وہی غصہ وہی تیور !
پر تمھارا اور تمھارے گھر کا راستہ تو
مجھے پتا ہے" وہ جیسے اسے کچھ جتاتے ہوئے بولی۔
پل میں اسکی آنکھیں کھلی تھیں دل بری طرح
ڈرا تھا سنابل کی اعتبار والی بات یاد آئی
تھی اگر یہ گھر پہنچ جاتی ہے تو اس روئے زمین پر کوئی ایسا نہیں ہوگا جو اسکا گھر
ٹوٹنے سے بجا لیتا ، سوائے اللہ کے، یہی سوچتے
عیسٰی کی آنکھیں سرخ ہوئی تھیں ، پل میں چہرہ غصہ سے تنا
تھا " میرے گھر سے دور رہنا ورنہ " وہ انگلی اٹھاتے وارن کرتے
ہوئے بولا۔
" ورنہ کیا کرو گے
پھر سے وہی غلطی دہراؤ گے " وہ اسکے دائیں گال پر انگلی پھیرتے بولی۔ وہیں
مقابل کے اندر شرارے سے پھوٹے تھے۔ عیسٰی نے جھٹکے سے اسکا ہاتھ اپنے سے دور کرتے
اسکے منہ پر زور دار تھپڑ مارا تھا کہ پل میں لزیانہ کی آنکھوں کے آگے اندھیرا سا
چھا گیا تھا اسنے گال پر ہاتھ رکھے غصے
سے عیسٰی کو دیکھا۔
" اس کے علاوہ اور
بھی میں بہت کچھ کرسکتا ہوں ، میرے معاملے میں ذرا سنبھل کر بات کرنا میں وہ پرانا والا عیسٰی نہیں
رہا ، بہتر ہے کہ تم اب مجھ سے دور رہو سمجھیں" وہ اسے انگلی
اٹھاتا پھر سے وارن کرتا وہاں سے نکل گیا
وہ زخمی نظروں سے اسے دیکھتی رہ گئی ۔