Friday 29 May 2020

Manzil by Rida Bashir Article


منزل


ردا بشیر 



رمضان المبارک کا آخری جمہ تھا۔لوگ سحری سے فارغ ہونے کے بعد سونے کی تیاریاں کرنے لگے۔وہ سویا نہیں تھا۔لاہور کا یہ رہائشی "پائیلٹ سجاد گل" جس کے پاس 24 سالوں کا جہاز اڑانے کا تجربہ تھا۔اپنا یونیفارم صحیح کرنے میں مصروف تھا اور یونیفارم سے ملتی جلتی باقی کی اشیاء۔
22-05-20طیارے کی اڑان بھرنے کا وقت آن پہنچا۔ائیرپوٹ پر آواز گونجی کہ "pk8303"کے تمام مسافر طیارے میں سوار ہوں تاکہ لوگوں کو بروقت انکی منزل پر پہنچایا جا سکے۔100سے زائد کی جگہ ہونے کے باوجود ایک وبا کے سبب اور حفاظت کے پیش نظر کم لوگوں کو سوار کیا گیا۔لیکن انسان جو سوچتا ہے وہ تھوڑی ہوتا۔۔۔۔۔
لاہور سے کراچی کے لئے پرواز بھری۔سب کے سب مسافر آنیوالے حسین لمحات کو آنکھیں بند کیے محسوس کر رہے تھے۔کہ عید گھر والوں کے سنگ منائیں گے۔اپنے خوبصورت مستقبل کو سوچ کر محفوظ ہو رہے تھے۔کہ سجاد گل نے کچھ محسوس کیا وہ مرد مجاہد اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لا رہا تھا۔ایک اناونسمنٹ ہوئی یا یوں کہیے کہ موت کا تعین ہو گیا۔لیکن وہ سب اس حقیقت سے بے خبر اترنے کی تیاری کرنے لگے۔سب کے چہرے کھل اٹھے تھے۔کہ ائیر پورٹ پر باپ،بھائی دوست احباب منتظر ہیں۔لیکن!یہ کیا؟جہاز جھٹکے کیوں کھانے لگ گیا؟
پائیلٹ کسی اور ہی شش و پنج میں مبتلا تھا۔ایک۔آخری کال جو "مے ڈے"تھی جب کہا گیا کہ" we have lost engin "کتنی بڑی بات تھی جو کتنے سکون سے ادا کی گئی۔سوچتی ہوں کہ اسے اپنے بچے اپنے منتظر دکھائی دیئے ہو گے۔اپنا گزرا زمانہ بھی یاد آیا ہوگا۔لیکن اسکا حوصلہ دیدنی تھا۔مضبوط اعصاب کا مالک ایک شیر دل نوجوان۔مےڈے سے ساری گفتگو میں کہیں بوکھلاہٹ نظر نہیں آ رہی۔وہ بوکھلاہٹ جو موت کو سامنے دیکھ کر نظر آتی ہے۔وہ حواس باختہ بھی نہیں تھا۔بس سوچ رہا تھا تو یہ کہ کیسے کم سے کم جانوں کا نقصان ہو۔وہ جہاز کسی بھی عمارت پر گر سکتا تھا لیکن بہت کوششیں کر کے کسی طرح جہاز کم آبادی والی جگہ تک لایا گیا۔تاکہ جانی نقصان کم سے کم ہو۔
لوگوں کا شور اور کلموں کا ورد۔یا اللّٰہ یہ کیسا منظر ہو گا۔چیخ و پکار اور تیرا نام۔آنکھوں میں سجے خواب....... وہ فاصلہ جو تیس سکینڈ کا رہ گیا تھا پوری عمر کاٹ کر بھی طے نہ ہو سکے گا۔ائیرپوٹ پر جو آنکھیں منتظر تھی وہ منتظر ہی رہی کتنی امیدیں،خواب اور خوشیاں۔۔۔۔ طیارے کے ساتھ جل کر راکھ ہوئیں۔کبھی کبھی منزل پر پہنچ کر بھی منزل چھوٹ جاتی ہے۔لیکن شاید!وہ تو منزل کو پا چکے ہیں بھٹک تو ہم انسان رہے ہییں۔حقیقی منزل کو۔لیکن اللّٰہ اپنے معجزات بھی دکھاتا ہے۔اس اندوہناک اور دلخراش حادثے میں دو لوگ معجزاتی طور پر بچ بھی گئے۔
بات منظوری کی تھی ورنہ
ہم تو منزل پر پہنچ چکے تھے۔



No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...