Sunday 26 April 2020

Khyal e yaar by Manwa Batool


خیالِ یار
رات کے پہر گھر کے تمام افراد سو رہےتھے ۔وہ اپنے بستر سےاْٹھی  دھبے پائوں  سٹڈی ٹیبل کی جانب بڑھی اور آہستہ سے  قلم اٹھا کر  کاغز پر لکھنے لگی ۔"پیارے جمال    'کل بھی تمہیں خط لکھا  مگر اس کاجواب ابھی تک موصول نہیں ہوا ۔یہ خط  اس لیے لکھ رہی ہوں    تاکہ تصدیق ہو جائےکہ ڈاکیے نے تمھیں خط دیا یا نہیں اب کی بار تمھارے انگوٹھے کا نشان  نہ ہواتو اس ڈاکیے کی خبر لوں گی ۔ تمھاری  جمیلہ"۔یہ لکھ کر اسنے دائیں بائیں نظر دھوڑائی اور پھر خط کو لپیٹ کر اپنے پرس میں رکھ لیا اتنے میں فجر کی اذان ہو گئی وہ وضو بنا کر آئی اور مصلہ  بچھایا  ابھی نیت کرنے ہی لگی تھی کہ اسے خیال آیا 'ہائے اللہ ''کہیں وہ خط جمال کے اباّ کے ہاتھ تو نہیں لگ  گئے  پر اسنے یقدم اپنے سر کو جھٹکا اور نماز پڑھنے لگی  ۔ صبح سورج نکلا تو اسکی ہلکی کرنیں اسکی آنکھوں  میں لگیں اسنے نیم  آنکھیں کھولیں اور ہوش میں آتے ہی ہڑبڑا کے اٹھی ۔" ہائے  میں تو یہیں  پڑی سو گئی ڈاک خانے جانا تھا "۔اسنے چادر اوڑھی اور پرس لیے دروازے کی جانب  بڑھی۔ "ارے ' کہاں  چل دی سویرے  منہ اٹھا کے واپس آ ناشتہ بنا سب کے لیے "۔ اْف  او اس چچی کو بھی خدا واسطے کا بیر ہے مجھ سے  " منہ میں منمنائی  اور  کنڈی کھول کر نکل گئی ۔چچی بولی''مہر کے ابا  سنتے ہو ''چلی گئی تمھاری لاڈلی  ہماری عزت کا  جنازہ نکال کر اس مردود   کے مقبرے میں خط دفنانے" ۔وہ ڈاک خانے پہنچی اور پرس سے خط نکال کر اس پر پتا لکھا اور ڈاکیے سے کہنے لگی "کل کا خط ا رسال نہیں   ہوا 'اسی پتے  پر بھیجا تھا "۔اسنے  اسے کہا ۔ دیکھو  بی بی ' یہ دستخط   ، خط ارسال ہو گیاہے ،جواب موصول نہیں ہوا۔ یہ سن کر وہ پریشانی اور حیرت کے عالم میں وہاں سے چل دی ۔ گھر لوٹنے پر چچا   نے اس سے پوچھا  تم کہاں گئی تھیں ؟ اسنے جواب دیا ۔ " ڈاکخانے " ۔ تھوڑی دیر کی خا موشی کے بعد  دروازے پر دستک ہوئی  چچا نے دروازہ کھولا تو ڈاکیا تھا ۔جی " جمیلہ بی بی کا گھر یہی ہے؟ انکے نام خط آیاہے ۔ یہ سنتے ہی وہ خوشی سے  دوڑی اور خط لے کے کمرے میں چلی گئی ۔  خط کو بغیر نقصان پہنچائے لفافے کو چیر پھاڑ کرنکالنے  لگی وہ  طرب سے مخبوط الحواس تھی ۔خط  میں لکھا تھا پیاری جمیلہ 'امید ہے تم خیریت سے ہو گی مجھے تمھارا خط ملا میں تمھیں یہ بتانا چاہتا تھا کہ شاید میں اب تمھیں خط نہ لکھ سکوں مجھے کام کے سلسلے میں ایسی جگہ جانا ہے جہاں سے رسائی ممکن نہیں اگر تمہیں میری یاد   آئے تو پرانے خطوںکو نکال کے پڑھ لینا  مجھے سکون ملے گا ۔سطروں کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ اسکی  مسکراہٹ جا تی رہی۔خط کے مکمل ہونے پر وہ بے سکت  کرسی پر بیٹھ گئی اور خط ہاتھ سے پھسل کر   زمین پر بل کھانے لگا ۔ اگلی صبح پھر  دروازے پر دستک ہوئی ایک نوجوان  ہاتھوں میں ڈبا اْٹھائے کھڑا تھا ۔ چچی کے پوچھنے پر اس نے بتایا کے اسکا نام شفیع  نیازی ہے اور وہ جمال کا دوست ہے ۔  چچی اسے عقاب کی نظروں سے تکنےلگیں ۔جمال کا نام سنتے ہی  جمیلہ دوڑی چلی آئی اور اس سے پوچھنے لگی ۔ "جمال کہاں گیا ہے اور کونسی ایسی جگہ ہے جہاں سے خط نہیں لکھ سکتا وہ ؟۔ شفیع نیازی  لاجواب سر جھکائے کھڑا رہا ۔ چچی نے کہا ۔" لوجی ہزار بار بتاچکے ہیں بی بی کےوہ تیرے خیال میں رہتا ہے دنیا سے کب کا جا چکاہے"۔  یہ کہہ کے وہ چل دی۔ شفیع نیازی نےجمیلہ کو وہ ڈبا تھمایا اور کہا ۔ "جمال نےبولاتھا یہ آپکو دے دوں  ،اباجازت  میں چلتا ہوں'' ۔ اسنے کمرے میں جا کر ڈبا کھولا تو خطوں سے بھرے کاغذ تھے وہ خط جو  وہ اسکے لیے لکھ کے چھوڑ گیا ۔شام کے وقت آندھی اور طوفاں کا سماں تھا ۔ چچا کے لوٹتے ہے وہ انکے پاس گئی اور پوچھنے لگی  ۔" چچا 'جمال کہاں گیا ہے؟ اسنے خط 
ایک بار میں ہی بھیج دیےجیسے اب نہ ہی اسے کبھی قلم میسر ہو گا نہ کاغذ"۔چچاافسردگی سے بولے "۔بیٹی "۔ اسے زندگی میسر نہیں تھی یہ تو  بے جان اشیاء ہیں ۔ وہ تپ دق کا مریض تھا اور اپنی ہر زخمی سانس کے ساتھ تجھے ایک خط لکھتا تھا پر اپنا زخم نہیں  بتاتا تھا۔وہ گزر گیا  چند مہینے پہلے پر تو اس آس پر نہیں مانتی تھی کیونکہ اسکے خط آتے تھے ۔لکھنے والا وہی تھا پر بھیجنے والا شفیع نیازی تھااور آج اسکے لکھے سارے ہی لے آیا کمبخت' بےایمان نکلا 'دوست کی بیوہ کے ساتھ ہمدردی بھی نہ نبھا سکا ۔ یہ سننا تھا کے  درد کے بادل گرجے، آنسئوں کی بارش برسی اور جمیلہ خیال یار میں تڑپتی رہی۔  
تمنا وصل یار کی طربِ دلگی ہے
گر ہے خیالِ یار تو کیف آفریں ہے







No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...