Pages

Sunday, 20 November 2022

Mera haq e warasat by Muntaha Chouhan Season 2 Complete

 



Mera haq e warasat by Muntaha Chouhan Season 2 Complete

رات کے سناٹے میں پچیس جوانوں کا دستہ ابتسام کی سرپرستی میں سلطان کے اڈے کی طرف موو کر رہا تھا۔ آج سلطان کی سانسیں بند کرنے کا دن تھا۔ سپاٸ گرل اپنا راستہ خود بناتی ان سب کے ساتھ ساتھ ہی تھی۔ بلیو ٹوتھ کے زریعے اسکا رابطہ ابتسام سے تھا۔
وہ سلطان کے اڈے کے قریب پہنچ چکے تھے ۔
گناہوں کی دنیا کا بادشاہ۔۔۔۔۔! آج انتقام اور تیرا اختتام ایک ساتھ۔ ان شاء اللہ
ابتسام نے دل ہی دل میں کہا ۔ اور تمام جوانوں کو پھیل جانےکا اشارہ کیا۔ اور آگے بڑھنےکا اشارہ کرتے خود بھی پیش قدمی کرنے لگا۔
ایک ایک کر کے سلطان کے آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتارنا شروع ہک دیا گیا تھا۔ جو وہاں ڈیوٹی پے تھے۔ ایک ایک کرنے سب کو موت کی نیند سلا رہے تھے۔ فوجی جوان۔
سر۔۔۔! آگے سرنگ کی طرف موو کریں۔۔۔۔؟
ارباز نے سوال کیا۔ ابتسام کا شان سےبھی مسلسل رابطہ تھا۔
پہلے نور جہاں کو حراست میں لینا ہے۔ تا کہ سلطان کوٸ چالاکی کرے تو اسے منہ توڑ جواب دیا جا سکے۔
اور پھر شان کی مدد سے وہ نور جہاں تک پہنچ ہی گۓ۔
اور اسے اپنی حراست میں لے لیا ۔
لیکن ۔۔ سلطان کے ایک آدمی نے انہں دیکھ لیا اس نے فاٸرنگ شروع کر دی۔ جس سے سلطان اپنے آدمیوں سمیت الرٹ ہوا تھا۔ دونو ںطرف سے فاٸرنگ کا تبادلہ ہوا۔
اور جب سلطان کو ابتسام کی گن سے نکلی گولی لگی تو وہ بازو پکڑتا تڑپ کے پیچھے ہوا۔
ابتسام نے ان کا فم ٹوٹتا دیکھا تھا۔ ماٸیکلیتے انکو للکارا۔
سلطان۔۔۔! اگر زندہ بچنا چاہتے ہو۔۔ تو۔۔ خود کو ہمارے حوالے کر دو۔۔! ورنہ آج تمہاری موت یقینی ہے۔
ابتسام کی آواز وہاں گونجی تو سلطان نے اپنی طاقت کا اندازہ لگایا۔
منہ سے تھوک پھینکا تو س میں خون شامل تھا۔
کہاں غلطی کر گیا۔۔۔ام۔۔۔؟؟ جو یہ پہنچ گۓ ام تک۔۔؟؟
کس نے دھوکا دے دیا۔۔؟؟ سلطان دیوار کے ساتھ ٹیک لگاۓ کھڑا اپنی گن پے گرفت مضبوط کی۔
سلطان ۔۔! خود کو ہمارے حوالے کردو۔۔ تو۔۔ ہی بہتر ہے۔۔ونہ۔۔ یہ جان لو۔۔ آج تمہارا آخری دن ہے۔
وہ جانتا تھا۔ اسکے کافی سارے آدمی مر چکے تھے۔
اور یہ ایجنسی کےبندے اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیں۔ کوٸ بھی نہیں جانتا تھا۔
اس لیے سلطان نے لڑ کے مر جانا زیادہ مناسب سمجھا۔
اس لیے گن پے اپنی گرفت مضبوط کرتا وہ اندھا دھند فاٸرنگ کرتا چلا گیا ۔ لیکن ابتسام یا کسی اور نے فاٸرنگ نہ کی۔ انکا ارادہ اسے زندہ پکڑنا تھا۔ اور عبرت کا نشان بنانا تھا۔
سپاٸ گرل چھپ کے تاک لگاۓ بیٹھی تھی۔ وہ بس موقع کی تلاش میں تھی۔ جبکہ زخمی ہونے کے باجود سلطان کے کٸ آدمیوں کو اس نے مار گرایا تھا۔
سلطان کے گن میں گولیاں اینڈ ہوگٸیں۔
اوہ۔۔۔ عاشق۔۔ گن پھینک۔!
سلطان نے فبک کے بیٹھے عاشق سے کہا۔ جبکہ سلطان بالکل سممنے کھڑا تھا جیسے مرنا ہی آج اکا مقدر ہے۔ اور وہ مقدر سے لڑنا بھی نہیں چاہ رہا تھا۔
عاشق نے کچھ دیر سوچا۔ او پھر اپنے ہاتھ میں پکڑی گن سلطان کی طرف اچھالی ۔ جو سلطان کے ہاتھ کی بجاۓ زمین پے جا گری۔ لطان نے آگے بڑھ کے اٹھانا چاہا۔ کہ ایک گولی نے اسکےہاتھ پے اپنا نشان چھوڑا۔ وہ تڑپ ہی گیا ۔
زور زور سے چلایا ۔ وہ بیچوں بیچ بیٹھا درد سے کراہ رہا تھا۔
سامنے پڑی گن وہ اٹھا نہیں پار ہا تھا۔
بے بسی ہی بے بسی تھی۔
تڑپتے ہوۓ دوسرے ہاتھ سے اٹھانی چاہی۔ کہ ایم اور فاٸر ہوا۔ جو اسکے دوسرے ہاتھ کی پشت پے پنا نشان چھاپ گیا۔
اب وہ دونوں ہاتھوں سے ہی معزور ہوتا وہییں گر گیا ۔
ابتسام اس کے سامنے آیا۔ ہوا کا تیز جھونکا ابتسام کو چھوکے گزرتا سلطان پے دہشت طاری کر رہا تھا۔
Click on the link to read







No comments:

Post a Comment