Pages

Thursday, 24 November 2022

Dayar e weshat by Zeeniya Sharjeel Complete PDF

 

Dayar e weshat by Zeeniya Sharjeel Complete PDF


AFTER MARRIAGE STORYINNOCENT GIRL BASE NOVELSREVENGE BASE NOVELSROMANTIC NOVELSRUDE HERO BASE NOVELS,COUSIN BASE NOVELSMULTIPLE COUPLES BASED NOVELS,POLICE OFFICER BASE NOVELSSECOND MARRIAGE


"کھانا کھالیا اُس نے"
صبح سے اب رات ہوچکی تھی عباس نے ہیر کو ابھی تک اُس چھوٹے سے کمرے میں قید کر رکھا تھا خود وہ کسی ضروری کام سے چلاگیا تھا۔۔۔ اب رات کے وقت کھانے کی میز پر فرغب بی سے ہیر کے بارے میں پوچھنے لگا
"بہت ضدی ہیں آپ کی بیوی۔۔۔ نہ ہی انھوں نے دوپہر میں کچھ کھایا نہ ہی رات کا کھانا کھارہی ہیں"
فرغب بی عباس کو جواب دیتی ہوئی بولیں آج صبح اُن کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تبھی ڈرائیور کے ساتھ وہ ڈاکٹر کے پاس چلی گئی تھیں جب ہیر پیلس میں اُن کی واپسی ہوئی تب ایک نیا باب کُھل چکا تھا
"میں دیکھتا ہوں جاکر"
فرغب بی کا جواب پاکر عباس سے بھی کھانا نہیں کھایا گیا، وہ صبح سے خالی پیٹ تھی عباس کرسی سے اٹھتا ہوا کمرے کی طرف جانے لگا جس میں اُس نے صبح ہیر کو بند کردیا تھا
گول گٹری بنی وہ نیچے ٹھنڈے فرش پر لیٹی تھی، کمرے کا دروازہ کھولنے پر ہیر میں کوئی ہل جھل نہیں ہوئی تھی صرف آنکھیں اٹھا کر وہ کالے لباس میں اپنی جانب آتے عباس کو دیکھنے لگی
"کھانا کیوں نہیں کھارہی ہو تم"
عباس ہیر کی جانب قدم اٹھاتا ہوا ساتھ ہی ہیر سے پوچھنے لگا، ہیر اِس وقت بےسدھ نڈھال سی زمین پر لیٹی ہوئی تھی اور کمرہ بےانتہا ٹھنڈا ہورہا تھا
"آپ کی شکل نہیں دیکھنا چاہتی ہوں میں چلے جائیے یہاں سے"
ہیر عباس کے جواب میں یونہی لیٹے لیٹے عباس کو دیکھ کر بولی آج اسے عباس کو کالے رنگ کے لباس میں دیکھ کر ڈر نہیں لگ رہا تھا آج اس نے اپنے شوہر کا جو روپ دیکھا تھا وہ اُس روپ سے بھی زیادہ بھیانک تھا جس سے وہ ابھی تک ڈرتی آئی تھی
"شکل تو میں اپنی تبدیل نہیں کرسکتا، ساری عمر تمہیں اسی شکل کے ساتھ گزارا کرنا ہے چلو اٹھ کر بیٹھو"
عباس اُس کو بولتا ہوا خود اٹھانے لگا کافی دیر سے ٹھنڈے فرش پر لیٹے رہنے کی وجہ سے اُس کے ہاتھ پاؤں کافی سرد ہورہے تھے عباس اپنے شانوں سے گرم چادر اتار کر ہیر کے گرد لپیٹنے لگا
"آپ نے میرے ساتھ وہ سب کیوں کیا تھا عباس۔۔۔ کون سا شوہر اپنی بیوی کے ساتھ اِس طرح کرتا ہے، کیوں مجھے اتنے دنوں تک خوف میں ذہنی اذیت میں مبتلا رکھا آپ نے، کیو مجھے باور کرواتے رہے وہ سب کرنے والے آپ نہیں کوئی دوسرا تھا، ترس نہیں آیا آپ کو میری ذات پر"
عباس جانتا ہیر اُس سے کس بارے میں بات کررہی تھی۔۔۔ وہ اسے کالے لباس میں دیکھ کر آج خوفزدہ نہیں تھی اس کا یہی مطلب تھا وہ سب کچھ سمجھ چکی تھی جبھی اُس سے سوال پوچھ رہی تھی جس کا جواب دینا عباس نے ضروری نہیں سمجھا
"لو کھانا کھالو"
وہ چھوٹی سی ٹیبل پر رکھی کھانے کی ٹرے ہیر کے پاس لے آیا اور اپنے ہاتھ سے نوالہ بناکر اپنا ہاتھ ہیر کے منہ کی طرف بڑھاتا ہوا بولا
"یوں میری باتوں کو نظر انداز کردینے سے آپ کے جرم کم نہیں ہو جائیں گے بعد میں آپ کس کس بات کی معافی مانگیں گے مجھ سے"
ہیر عباس کا ہاتھ پیچھے کرتی ہوئی اُس سے بولی
"جانتی کیا ہو تم آدھا ادھورا سچ، مکمل حقیقت سے تم ابھی بھی ناواقف ہو میری جان جس دن تصویر کا دوسرا رخ تمہارے سامنے آگیا تو شاید خسارہ میرے حصّے میں نکلتا دیکھ کر معافی تمہیں مانگنی پڑے اپنے شوہر"
عباس ہاتھ میں پکڑا روٹی کا نوالہ واپس پلیٹ میں رکھتا ہوا ہیر سے بولا
"مجرم اور قاتل سے معافی نہیں مانگی جاتی ہے نہ ہی وہ معصوم ہوا کرتے ہیں"
ہیر اب کی بار تھوڑا تیز آواز میں احتجاجاً بولی
"اپنے کمرے میں چلو یہاں کافی ٹھنڈ ہے تم بیمار ہوجاؤ گی"
عباس ایک مرتبہ پھر اُس کی بات کو نظرانداز کرتا ہوا ہیر سے بولا اور خود اٹھ کر کھڑا ہوگیا
"مجھے آپ کے کمرے میں نہیں جانا اِس قید سے آزادی چاہتی ہوں میں"
ہیر کھڑی ہوئے بغیر عباس کو دیکھتی ہوئی بولی
"آزادی تمہارے مقدر میں نہیں لکھی ہے نہ ہی میں تمہاری کوئی فضول کی ضد پوری کرسکتا ہو"
عباس نے بولتے ہوئے جھک کر ہیر کو اپنے مضبوط بازوؤں میں اٹھا لیا۔۔۔ ہیر میں اتنی توانائی نہ تھی کہ وہ صبح کی طرح چیختی چلاتی یا پھر احتجاج کرتی۔۔۔ عباس ہیر کو اپنے بازوؤں میں اٹھاۓ بیڈروم میں لاکر بیڈ پر بٹھا چکا تھا
"فرغب بی کھانا لاکر دیں تو بغیر ضد کیے کھالینا"
عباس ہیر کی نم آنکھیں دیکھتا سنجیدہ لہجہ اختیار کرکے بولا
"میرے ابو کی طرف فرحانہ بھی مر گئی۔۔۔ فرحانہ کو بھی مار ڈالا آپ نے عباس"
ہیر نم آنکھوں اور بھیگے لہجے کے ساتھ عباس سے پوچھنے لگی
"ہاں مار ڈالا اسے بھی اور اب تم کوئی بےکار سوال مجھ سے نہیں پوچھوں گی، صرف وہی کرو گی جو میں بولوں گا"
عباس ہیر کی نم آنکھیں دیکھ کر سخت لہجہ اختیار کرتا ہوا بولا
"نہیں تو کیا کریں گے آپ مجھے بھی مار ڈالیں گے"
ہیر آہستہ آواز میں عباس سے پوچھنے لگی تو عباس چلتا ہوا ہیر کے پاس آیا وہ بیڈ پر بیٹھی ہوئی عباس کی سنگدلی دیکھ رہی تھی۔۔۔ عباس ذرا سا اُس کے چہرے کی طرف جھکتا ہوا سنجیدہ لہجے میں بولا
"اگر تم نے ہیر پیلس سے باہر قدم رکھا یا پھر یہاں سے جانے کی ضد کی تو میں تمہیں بھی مار ڈالوں گا"
وہ سفاکی سے بولتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا ہیر اپنا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں چھپا کر رونے لگی
***"""***
"کتنا وقت لگا رہی ہو آرذو تیار ہونے میں چلنا ہے یا نہیں"
بیڈ پر لیٹے ہوۓ ہاشم نے ایک مرتبہ پھر آرزو سے پوچھا جو اُس کی جانب پشت کے آئینے کے سامنے کھڑی بڑے دل سے تیار ہو رہی تھی
"ہاشم تھوڑا ٹائم تو لگے گا ایسے ہی اٹھ کر چلی جاؤ اپنی بہن کی خوشی میں"
آرزو ہاشم کی جانب رخ کرتی بولی تو ہاشم اُس کی تیاری دیکھ کر ایک پل کے لیے مہبوت سا رہ گیا
"جلدی جانے کا اِس لیے بول رہا ہوں کیوکہ امامہ کے نکاح کے بعد وہاں سے تمہیں سونیا کی منگنی میں بھی جانا ہے۔۔۔ یار کیا بہت ضروری ہے سونیا کی منگنی میں جانا"
ہاشم آرزو کے پروگرام کے مطابق اُس سے پوچھنے لگا۔۔۔ آج شاویز کے ساتھ امامہ کا نکاح سادگی سے گھر پر رکھا گیا تھا اور آرزو کی دوست سونیا کی منگنی بھی آج ہی کے دن مقرر کی گئی تھی جس میں شرکت کرنے کے لیے آرزو دل و جان سے تیار ہوئی تھی
"بہت ضروری ہے ہاشم سونیا کی منگنی میں جانا نہیں تو وہ بہت زیادہ ناراض ہوجائے گی اچھا بس پانچ منٹ دے دیں میں بس تیار ہونے والی ہو"
آرزو ہاشم سے بولتی ہوئی دوبارہ اپنی رُخ آئینے کی طرف مُڑنے لگی
"پانچ منٹ تو اب تمہیں مجھے دینے ہونگے"
ہاشم کی بات پر آرذو پلٹ کر ناسمجھنے والے انداز میں بیڈ پر نیم دراز ہوۓ ہاشم کو دیکھنے لگی
"پانچ منٹ سے زیادہ وقت لگنا بھی نہیں چاہیے آپ کو تیار ہونے میں، ڈریس آپ کا پریس ہے بلکہ آپ بھی تیاری شروع کریں"
آرزو ہاشم سے بولتی ہوئی ہاتھوں میں چوڑیاں پہنے لگی تو ہاشم بیڈ سے اٹھ کر قدم اٹھ کر آرزو کے پاس آیا
"ہاشم میں آپ کو کیا بول رہی ہوں اور آپ ابھی کیا کررہے ہیں"
ہاشم نے جیسے ہی آرزو اپنے حصار میں لیا آرزو ہاشم کا بدلتا ہوا موڈ دیکھ کر اُس کو بولنے لگی
"پانچ منٹ میں تیار ہونے کے لئے نہیں بلکہ تم سے اپنے لئے وقت مانگ رہا تھا"
ہاشم نے آرذو بولتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر جھکنا چاہا تو آرذو نے ہاشم کو بڑی بڑی آنکھیں دکھائی۔۔۔ ہاشم شرافت کا مظاہرہ کر کے اپنے ہونٹ اُس کے گال پر رکھ چکا تھا
"آپ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔۔۔ اگر میرا میک اپ خراب ہوا تو مجھے مزید دیر لگی کی تیار ہونے میں"
ہاشم کی نظروں میں اپنے لیے بےقراری دیکھ کر آرزو اُس سے بولی
"سمجھو ابھی موقع ہاتھ سے جانے دیا ہے اگر موقعے کا فائدہ اٹھاتا تو تم غصہ کرنے لگ جاتی۔۔۔ اور یہ رعایت صرف ابھی دے رہا ہوں واپس گھر آنے کے بعد آج کوئی رعایت نہیں ملنے والی تمہیں"
ہاشم گہری نظروں سے آرزو کو دیکھتا ہوا بولا تو آرزو کی پلکیں حیا سے جھک گئیں۔۔۔ ہاشم آرزو کے حسین سراپے پر بھرپور نظر ڈال کر خود بھی چینج کرنے چلا گیا
***"""***
"شاویز بھائی بہت اچھے انسان ہیں آپی مجھے بہت خوشی ہے آپ کے لئے آپ کیوں اداس لگ رہی ہیں"
نکاح کے بعد آرزو امامہ سے بولی امامہ دلہن کی بجائے سادہ سے روپ میں صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی اور اُس کی گود میں وانیہ سو رہی تھی۔۔۔ شاویز اور شہناس کے اصرار پر امامہ بھی راضی ہوچکی تھی تبھی جلدی اور سادگی سے نکاح کی تقریب گھر پر ہی رکھ دی گئی
"میں بھی خوش ہوں بس ابو اور ہیر کی یاد آرہی تھی"
امامہ کے بولنے پر صدیقی کے ذکر سے آرذو بھی اداس ہوگئی وہی کمرے میں آتی شہناس امامہ کا جملہ سنتی ہوئی اُس سے بولی
"ہیر کی تو بہت فکر ہونے لگی ہے مجھے، میری سب سے چھوٹی بیٹی ایسے آدمی کو بیاہی جائے گی معلوم نہیں تھا۔۔۔ شیر عباس کو دیکھ کر ذرا گمان بھی نہیں ہوتا ایسا بےحس انسان نکلے گا وہ، پہلے تو اُس نے ہیر کو ہمارے پاس آنے سے روکا ہوا تھا لیکن اب تو اُس نے ہیر سے بات کرنے پر بھی پابندی لگادی۔۔۔ تین دن سے ہیر کی آواز نہیں سنی معلوم نہیں کس حال میں رکھا ہے اُس نے میری بچی کو"
شہناس ہیر کو یاد کر کے مزید افسردہ ہونے لگی
"امی آپ فکر نہیں کریں میں نے ہاشم سے ذکر کیا ہے اِس بارے میں، بس وہ اپنے دو سے تین ضروری کام نمٹالیں پھر ہاشم مجھے لےکر خود عباس بھائی کے پاس جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔۔۔ ہم ہیر سے مل بھی آئیں گے اور عباس بھائی سے بات بھی کرلیں گے معلوم تو ہو آخر بات کیا ہے"
آرزو افسردہ بیٹھی شہناس کو دیکھ کر بولی جو صدیقی کے جانے کے بعد کافی کمزور ہوچکی تھی
"ارے وہاں جاکر بات کیا کرنی ہے بس سیدھا سیدھا وہاں سے میری بچی کو اپنے ساتھ لے آنا"
شہناس آرزو کو دیکھ کر بےقرار لہجے میں بولی تو امامہ نے بیچ میں مداخلت کی
"کیسی بات کررہی ہیں آپ امی، عباس بھائی ہیر کے شوہر ہے ان کی مرضی نہیں ہوگی تو یہ لوگ ہیر کو زبردستی تو اپنے ساتھ نہیں لاۓ گیں۔۔۔ آپ اپنے ذہن سے یہ وہم نکال دیں کہ عباس بھائی نے ہیر کو خوش نہیں رکھا ہوا، اگر ایسی بات ہوتی تو ہیر مجھ سے ضرور شیئر کرتی"
امامہ کے سمجھانے پر آرذو اور شہناس دونوں خاموش ہوگئیں
"تم سناؤ ہاشم کی پہلی بیوی کا رویہ تمہارے ساتھ کیسا ہے۔۔۔ اُس لڑکی کو دیکھ کر تو لگتا ہی نہیں ہے کہ تمیز اور اخلاق کا مظاہرہ کرتی ہوگی"
اب شہناس آرزو کی فکر کرتی اُس سے ماہ نور کے متعلق پوچھ رہی تھی۔۔۔ ماہ نور جو شہناس کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی
"میں زیادہ بات نہیں کرتی ہوں اُن سے، وہ بھی اپنے کام سے کام رکھتی ہیں۔۔۔ آپ ماہ نور کی وجہ سے ٹینشن مت لیں"
آرزو زیادہ کچھ نہیں بولی نہ ہی اُس نے ابھی تک شہناس امامہ کو یہ بتایا تھا کہ ہاشم اور ماہ نور ایک دوسرے سے علیدگی چاہتے ہیں کیوکہ ابھی ڈائیورس کے پیپرز نہیں آۓ تھے۔۔۔ جب تک ماہ نور اس گھر میں تھی آرزو اس سے الجھنا نہیں چاہتی تھی وہ ماہ نور کے طنز، طعنوں کو نظر انداز کررہی تھی کیوکہ اُس کی زندگی سے ماہ نور نام کا کانٹا چند ہی دنوں میں نکلنے والا تھا
"ہاشم بھائی تمہیں چھوڑ کر کیوں چلے گئے ہیں اب تم اپنے سسرال واپسی کیسے کروں گی"
امامہ بات کا رخ بدلتی ہوئی آرذو سے پوچھنے لگی کیونکہ تھوڑی دیر پہلے ہاشم امامہ کو نکاح کی مبارکباد کے ساتھ اپنے واپس جانے کا بھی اُس سے ذکر کرچکا تھا
"انہیں اپنے دوست کے پاس کسی ضروری کام سے جانا پڑگیا ہے ڈرائیور آنے والا ہے مجھے لینے کے لئے، پہلے سونیا کی طرف جاؤ گی پھر وہاں سے واپس گھر جاؤں گی"
آرزو امامہ کو اپنا پروگرام بتاتی ہوئی بولی
***""""***
"اف یہ ڈرائیور نے گاڑی اتنی دور اندھیرے میں کھڑی کی ہے"
آرزو قطار سے کھڑی گاڑیوں میں اپنی گاڑی تلاش کرنے لگی جو گلی ختم ہونے سے پہلے سب سے آخر میں کھڑی تھی آرذو جھنجھلاتی ہوئی پیدل چلتی گاڑی کی طرف بڑھی
اس نے سونیا کی طرف جانے کا اپنا پروگرام کینسل کردیا تھا کیونکہ رات کافی ہوچکی تھی۔۔۔ شہناس اور امامہ کے پاس اُس کو کافی ٹائم لگ گیا تھا مزید دیر کرکے وہ ہاشم سمیت گلنار اور ایوب خان کو خود سے شکایت کا موقع نہیں دینا چاہتی تھی
"ایسا کرو گاڑی گھر کی طرف لے لو"
آرذو گاڑی میں بیٹھنے کے ساتھ ہی ڈرائیور سے بولی کیونکہ بقول ہاشم کے وہ ڈرائیور کو سونیا کے گھر کا ایڈریس پہلے ہی سمجھا چکا تھا
"یہ کون سے ویران رستے سے لےکر جارہے ہو گاڑی۔۔۔ اور اتنا اندھیرا کیوں کر رکھا ہے لائٹ آن کرو"
آرذو ڈرائیور کو ٹوکتی ہوئی بولی۔۔۔ اُس کی ساری توجہ اِس وقت امامہ کے ساتھ کھینچی اپنی تصویروں پر تھی جو اس نے اپنے موبائل سے لی تھی۔۔۔ تبھی اُس کے موبائل پر ہاشم کی کال آنے لگی
"جی ہاشم بولیے"
ہاشم کی کال ریسیو کرنے کے ساتھ ہی آرزو بولی ویسے ہی ڈرائیور نے گاڑی کی اسپیڈ تیز کردی، آرزو ڈرائیور کو ٹوکنے سے رہ گئی کیونکہ ہاشم اُس سے کچھ بول رہا تھا
"کیا مطلب ہے آپ کا"
آرزو ہاشم کی بات پر الجھ کر بولی
"یار گاڑی خراب ہوچکی ہے بیچ راستے میں ڈرائیور گاڑی کو ٹھیک کروا رہا ہے تم وہی ویٹ کرو میں خود تمہیں تھوڑی دیر میں پک کرلیتا ہوں"
ہاشم نہ جانے اور بھی کیا بول رہا تھا لیکن آرزو کو تو جیسے سانپ سونگ گیا۔۔۔ اگر گاڑی خراب تھی اور ڈرائیور گاڑی کو ٹھیک کروا رہا تھا تو یہ کس کی گاڑی تھی جس میں وہ بیٹھی ہوئی تھی اور یہ آدمی۔۔۔
"گاڑی روکو"
آرذو گھبرائی ہوئی آواز میں اُس سے بولی تو آرذو کی بات سن کر وہ مزید گاڑی کی اسپیڈ تیز کرچکا تھا جس سے آرزو کا موبائل نیچے گر گیا۔۔۔ معلوم نہیں کال ابھی بھی کنیکٹ تھی کہ ہاشم اپنی بات بول کر کال کاٹ چکا تھا
"میں بول رہی ہوں گاڑی روکو کون ہو تم"
اب کی بار آرزو مزید اونچا بولی تو ڈرائیور نے گاڑی کی لائٹ آن کردی اور فرنٹ مرر کا رخ اُس نے اپنے چہرے کی طرف کیا۔۔۔ مرر میں اُس کا چہرہ دیکھ کر آرذو کی خوف سے آنکھیں پھیل گئی
***"""***
Click on the list to read the story





2 comments:

  1. ‏۔

    دیارِ نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو
    کوئی تو ہو جو میری وحشتوں کا ساتھی ہو

    میں اس سے جھوٹ بولو تو وہ مجھ سے سچ بولے
    میرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو

    میں اس کے ہاتھ نہ آؤں وہ میرا ہو کے رہے
    میں گِر پڑوں تو میری پستیوں کا ساتھی ہو

    ۔

    ReplyDelete