بابائے قوم کا پاکستان
تحریر: صبغہ احمد
پاکستان کی ابتدائی مشکلات پر غور کیا جائے تو علاقوں کی غیر منصفانہ تقسیم سب سے
زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ بیشتر مسلم اکثریتی علاقے جن میں فیروز پور، ضلع گورداس پور کی تحصیل زیرہ، حیدرآباد دکن اور کشمیر جیسی دیگر بہت سی مسلم ریاستیں شامل تھیں، انہیں بھارت کا حصہ بنا دیا گیا۔ اس کے علاوہ آرڈیننس فیکٹریوں اور فوجی اثاثوں کی غیر منصفانہ تقسیم، پانی کی روک تھام اور دیگر بہت سی مشکلات پاکستان کے استحصال کا باعث بنیں۔ بعد ازاں مہاجرین کی آبادکاری ان کی خوراک، رہائش و ادویات کا بندوبست بھی ایک کڑی آزمائش تھا۔ جس کے حصول کے لیے ہمارے محنتِ شاقہ سے کام کرنے والے رہنماؤں اور فوجی دستوں نے کارہائے نمایاں سرانجام دیا۔ یہ پاک وطن بلاشبہ ہمارے آبا کی بے دریغ قربانیوں کا ثمر ہے جس کے لیے جوانوں نے اپنی جوانی لٹائی۔ عورتوں نے اپنے باپ، بھائی اور شوہر گنوائے لیکن ان سب میں سب سے اہم ان کی وہ محنت اور لگن جسے وہ لے کر چلے اور جس کے بل پر وہ اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر وطنِ عزیز کے حصول کے لیے سرتوڑ کوششیں کرتے رہے۔ آج جب یہ ملک ہمارے بزرگوں کی ان تھک محنت کے عوض ہمارا اپنا ہے تو ہم اسے امن کا گہوارہ بنانے کی بجائے دہشت گردی، جنگ، چور بازاری، بھتہ خوری اور رشوت ستانی جیسی بیماریوں کا گڑھ بنائے ہوئے ہیں۔ یہی نہیں جگہ جگہ سڑکوں پر کچرے کا ڈھیر، گاڑیوں کا دھواں، پولیتھین بیگز کا استمال اور درختوں کا کٹاؤ صرف ہمارا ہی نہیں بلکہ معصوم جانوروں کے مسکن کو بھی تباہ کر رہا ہے۔ ملکی ترقی کی بات کریں تو سب سے اہم مسئلہ ہماری قومی زبان کا ہے جسے ہم نے خود ہی پستی میں دھکیل دیا ہے۔ دوسرے ممالک کی زبانوں کو اردو پر ترجیح دینا ایک المیہ ہے جو کہ ان ممالک میں ہماری پہچان کو مانند کر رہا ہے۔ ہمیں چھوٹے موٹے کام کر کے رزقِ حلال کمانے میں شرم آتی لیکن ایک بڑے ادارے میں کام کرتے ہوئے حلال و حرام کا فرق بھول جانے پر نہ تو ہمیں شرم آتی ہے نہ ہم غیر ملک سے ادھار مانگتے ہوئے سبکی محسوس کرتے ہیں۔ پاک وطن کی ترقی و کامرانی کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ ہم اردو زبان کو فروغ دیں۔ حلال رزق کی اہمیت کو سمجھیں۔ اپنے ملک کو صاف ستھرا رکھیں۔ پانی و بجلی کا بےدریغ استعمال نہ کریں۔ جن وسائل کی ہمارے ملک میں کمی ہے انہیں کفایت شعاری سے برتیں تاکہ ہمیں دوسروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے پڑیں۔ یہ ہمیں بہت چھوٹے پیمانے سے شروع کرنا ہوگا۔ ایک چپڑاسی اور کلرک سے لے کر ایک جج اور بیوروکریٹ تک ہر ایک کو اس ملک کی خوشحالی کے لیے کام کرنا چاہیئے۔ پاکستان کے حصول کا مقصد ایک آزاد وطن کا حصول تھا جہاں ہم اسلامی تعلیمات کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کر سکیں لہٰذا ہمیں اسے بابائے قوم کے خواہش کردہ وطن کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔ ہمیں یاد رکھنا ہے کہ اس آشیانہ(ء) محبت کو ہماری ضرورت ہے۔ اس پر جو کبھی آنچ آئے تو اس کی مٹی سے محبت کی گواہی دیتے ہوئے اپنا خون اس میں شامل کر دینا اور تن، من اور دھن سے اس کی حفاظت کرنا ہم پر فرض ہے۔ یہ اس پاک سر زمین سے محبت کا تقاضہ جس نے ہمیں اپنی گود میں پالا ہے۔
دوستوں آؤ کہ تجدیدِ وفا کا دن ہے
ساعتِ عہدِ محبت کو حنا رنگ کریں
خونِ دل غازہ(ء) رخسارِ وطن ہو جائے.
اپنے اشکوں کو ستاروں سے ہم آہنگ کریں.
****************
No comments:
Post a Comment