Monday 13 August 2018

Aap beeti So lafzi afsana by Malik Aslam Hamshira

Aap beeti So lafzi afsana by Malik Aslam Hamshira
”  آپ بیتی“

از قلم ملک اسلم ھمشیرا،اوچ شریف

 آج کل گرمیوں کی چھٹیاں قبر میں ٹانگیں  لٹکاٸے اپنی آخری سانسیں گن رھی ھیں اور ھم اساتذہ کرام ان کی اس حالتِ ذار پر ٹھنڈی سانسیں لے رھے ھیں ،کیونکہ گرمیوں کی چھٹیاں ھی ھماری عیاشی کا واحد ذریعہ ہوتی ھیں ،سارا دن سونا اور سو سو کر تھک جانا تو تھکن اتارنے کے لیے پھر سو  جانا، ایک تو جب سے یہ کمبخت فیس بک آٸی ھے سونے جاگنےکا ٹاٸم ٹیبل بھی عجیب و غریب شکل اختیار کر چکا ھے،ابھی پرسوں کی بات ھےکہ علی الصبح 4بجے کسی ٹھرکی نے  اپنی جانو مانو کے بُھلیکھے میں میرا نمبر ڈاٸل فرما دیا اور جونہی میری جاگ ھوٸی ،ھیلو کیا تو  جواب ندارد٠٠٠
اتنے میں نماز کا وقت ھو گیا اور مسجد چلا گیا ،جوتی سرقہ ھونے کی فکر  دوران نماز بالکل آڑے نہیں آٸی کیونکہ میں وہ پرانی سوفٹی پہن کے گیا تھا جو پاٶں کے دباٶ پڑنے پر شوں شاں، شوں شاں کی سیٹی بجاتی ھے اور نماز کا وضو کر تے وقت یہ بھی اپنے حصے کا پانی نوش فرما لیتی ھےاور  پانی سے اس کی آواز مزید دردناک ھو جاتی ھے ،لہذا اس کے مسجد سے چوری ھونے  کے امکانات اتنے ھو جاتے ھیں جتنے مولانا فضلو کے وزیر اعظم بننے کے٠٠٠ اداٸیگی نماز کے بعد گھر آ کر دوبارہ ایسے سو گیا جیسے مولوی صاحب  نے مجھے مشروبِ قاٸم علی شاہ  پلا دیا ھو ، مگر شومیٕٕ قسمت، بیگم نے چیف جسٹس کی طرح سو مو ٹو ایکشن لیتے ھوۓ حکم نامہ جاری فرمایا کہ گھر میں تو خاک نہیں ،پلک جھپک میں ایک خالی کِٹا بمعہ سودا سلف کی لمبی فہرست، تھما کر گیٹ سے نکال باہر کیا ،میں بھی حُب الپتنی کے جزبے سے سرشار بد رنگے کپڑے پہنے اور آنکھیں مکولتےمنڈی کی طرف گامزن ھو گیا ابھی چوھدری منیر والی گلی ہی مڑا تھا کہ ٠٠٠٠٠ایک ماسی نما عورت نے میرے حُلیے کا ٹھیک اندازہ لگاتے ھوۓ استغفار کیا ٠٠٠٠٠٠کہ ”گتے تے بوتلاں وی گھِنسیں“ ؟
یہ سُن کر میرے چوداں طبق روشن ھو گۓ اور میں نے سنی ان سنی کرتے ھوۓ سپیڈ پکڑی اور منڈی جا دھمکا٠٠٠
وہاں  ٹماٹر والوں کی تو رقت امیز صداٸیں تھیں کہ تیس کے دس کلو٠٠٠ پچاس کے دس کلو٠٠٠میں نے بسم للہ پڑھ کر ایک تھیلا پکڑا اور یہ جا وہ جا
آگے متیرے والے کی دربار پہ حاضری تھی اس نے  مجھے دیکھتے ہی اپنے بیٹے کو مخصوص انداز میں اشارہ کیا اور کہا یہ اپنے ماسٹر صاحب ہیں کوٸ چنگے دانے نکال کے دینا٠٠٠
لڑکے نے دو تربوزوں کو تھپکی لگاٸ تیسرا اٹھا کر دے دیا٠٠٠پھر دو کو تھپکی لگاٸ اور تیسرا آنکھ بند کر کے دے دیا میں تربوزوں کے الٹراساٶنڈ کی اس جدید منطق کو سمجھنے سے قاصر تھا سو  اٹھا کر چلتا بنا٠٠٠
پھر قصاٸ کے حضور پیشی ھوٸ تو قصاٸ نے پوچھا ملک صاحب کیا چاہیے؟  مشکُٗ ٠شانہ٠ چانپ  ٠کلیجی ٠یا   پُٹھ؟؟؟؟
اچانک کسی گاھک کی آواز آٸ کہ”  عباسی صاحب کے پاۓ کہاں ہیں“؟
کسی نے کہا میرے گردے نکالو اور ہاں کلیجی دینا  دل نہ دینا٠٠٠،ھڈی کچھ توڑ دو٠٠٠
میں ہکا بکا ہو کر تماشاٸے اہلِ کرم دیکھتا رھا پھر گوشت کی سرخی دیکھتے ھوۓ قیمہ مارنے کو کہا، تو وہ ”جی ساٸیں کہہ کر٠٠٠٠  ہر فرقے ،ہر مسلک، ہر رنگ کی بوٹی ڈال کر ایک مرکب تیار کر کے دے  دیا ٠میرے احتجاج سے پہلے وہ کسی مستند حکیم کی طرح بول اٹھا”واہ ملک صاحب  ”یہ تو وہ بوٹی ھے جس کی خاطر قصاٸ نے اپنی بیوی کو قتل کر دیا تھا ،دوسری بوٹی کو شوگر کے لٸے اکسیر قرار دیا ،یہ جو بوٹی ھے جوڑوں کے درد کا علاج ھے ، پھر میں نے ایک چھیچھڑے کو شاپر سے  باھر نکال کر واپس کرنا چاھا تو قصاٸی نے میری دکھتی رگ پر ھاتھ رکھتے وہ افادیت بتاٸی کہ جس کو سن کر لقمان حکیم کی روح بھی کانپ اُٹھی فرمایاکہ ”یہی تو وہ بو ٹی ھے جو جناب کو رات بارہ بجے اُٹھاٸے گی “
میں نے اس نایاب چھیچھڑے کو واپس شاپر میں ڈالا اور    گھر چم پت ھو گیا 
گھر  پہنچ کر میں نے تھیلا زال کے قدموں میں  رکھتے ھوۓ داد طلب نگاھوں سے  بیگم کو دیکھا مگر  بیگم نے کہا کہ تم کو ابھی شاباشی دینا قبل از وقت ھو گا٠٠٠٠٠ فورًا چُری سے ایک تربوز کاٹا گیا  تو تربوز کی مہک سے مجھے  اندازہ ھو گیا کہ میرا بیوی کے سامنے  موجود ھونا خطرے سے خالی نہیں  سو میں نے فورًا دوسرے تربوز کی قربانی پیش کی مگر وہ تو اُس سے بد تر  نکلا ٠٠٠یہ  تو خدا کا شکر ھے کہہ میری عقابی نظر پہلے منحوس متیرے پر جمی ہوٸ تھی  اور میں نے خطرے کو پہلے ھی بھانپ لیا تھا،  چنانچہ باہر کیلیے رختِسفر باندھنے کو ترجیح دی٠کیونکہ کسی وقت بھی برتنوں کی شیلنگ شروع ھو  سکتی تھی
میں نے باہر نکلنے میں ھی عافیت سمجھی کیوں  کہ مزید ٹماٹر اور گوشت کی کوالٹی چیک کروانے کا  متحمل نہیں ھو سکتا  تھا وہ بھی گرمیوں کی تعطیلات کے حسین دنوں میں٠٠٠٠٠


*****************

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...