Monday, 25 September 2023

Tere nishan by Laiba Yousaf

 SNEAK

اس بچے کا باپ کون ہے ؟ ۔۔۔۔ سوال نہیں دو دھاری تلوار تھی جس نے حرا مرتضیٰ کا ماب چکنا چور کر دیا تھا ۔اس نے نیلم کو رپورٹس بھیجی تھی کہ شاید وہ طہ کو روکے وہ جانتی تھی نیلم روکتی تو وہ روک جاتا مگر نیلم کے جواب نے جیسے اسے بےسود کر دیا تھا ۔۔۔۔
اس خستہ حال سٹور روم میں اتنی خاموشی تھی کہ اس کی مدھم پرتی سانسیں بھی سنائی دے رہی تھی۔۔۔
اس نے سرد سانس ہوا کہ سپرد کیا ۔
میرا ایک اور رشتہ مار دیا تم نے طہ ۔۔۔۔ یا شاید وہ کبھی میرا تھا ہی نہیں ۔۔۔ وہ نیلم ہے صرف طہ کی پھوپھو ۔۔۔
وہ بےخودی کے عالم میں بول رہی تھی جب کال کنیکٹ ہو گئی دوسری طرف عمر تھا ۔۔۔ پریشان ۔۔۔ خوفزدہ ۔۔ مستقبل کے اندیشوں کے ساتھ ۔
ہیر تم ٹھیک ہو ۔۔۔ چھوٹتے ہی وہ بولا ۔
نہیں ۔۔۔ اس نے پہلی دفہ عمر سے کچھ راز نہ رکھنے کا سوچا ۔
طہ کو سب سچ ۔۔
نہیں ۔۔ اسے غلط فہمی ہو گئی ہے ۔۔ عمر کی بات کاٹتے بولی ۔
کیا مطلب ؟ وہ الجھ گیا ۔
اسے لگتا ہے میرا منگیتر معاز تھا میرا معاز کے ساتھ تعلق تھا ۔۔۔ اس نے معاز کو مار دیا ۔۔۔۔
اسلام آباد میں شیروز نے عمر کو گردن سے کان کی لو تک سرخ ہوتے دیکھا اس کی مٹھیاں کسی تھی اور فون ہر پکر سخت تھی ۔
اور وہ گھر گیا معاز کے تحفوں اور ان ایڈیٹ تصویروں جو تم نے اپنے کمرے میں لگائی تھی کی وجہ سے اس نے تمہیں جاسوس سمجھا اور اس نے امی ابو کو مار دیا ۔۔۔ وہ شدت غضب سے آواز بھاری ہو گئی ۔
میں پریگننٹ ہو اور نیلم کو بچے کے باپ کا نام جاننا ہے ۔۔۔ الفاظ تھے یا پگلا ہوا سیسا شیروز نے اس جوان ہیکل مرد کو لرکھراتے دیکھا ۔۔ وہ بھاگ کر اس کے پاس گیا تھا ۔
وہ ایسے کیسے بول سکتی ہے کیا وہ تمہیں نہیں جانتی ؟اس کی آواز میں دکھ تھا ۔۔ وہ اندھر سے ٹوٹا ہوا لگ رہا تھا ۔
ہاں ۔۔۔ وہ مجھے نہیں جانتی وہ مرتضیٰ کی بیٹی کو جانتی ہے جو اپنے باپ جیسی ہے بدکردار ۔۔۔
چپ بلکل چپ ۔۔ عمر دھارا تھا ۔۔
تم میری بہن ہو میری ہیر ۔۔۔ میری ہیر کسی کو وضاحت نہیں دے گی ہم کہی دوور چلے جائے گے بہت دوور الله کی زمین بہت بری ہے ۔۔۔۔ شیروز نے اس کے تاثرات اور الفاظ کا متضاد دیکھا وہ ڈگمگا رہا تھا ۔
تم دنیا کہ دوسرے سب سے اچھے بھائی ہو ۔۔ حرا نے بھاری دل سے بس اتنا ہی کہا تھا کہ ہر طرف شور سا مچ گیا ۔۔۔ ہوا آندھی میں بدل گئی ۔۔
عمر کیا ہو رہا ہے ؟ ہیر نے فکر مندی سے پوچھا ۔
عمر بھاری قدموں سے مرا تھا ۔ شیروز پہلے ہی مسلسل طہ کو گور رہا تھا جو چاپر میں سر اور آدھا دھر باہر کیے کھرا تھا اس کا ایک ہاتھ جیب میں تھا تو دوسرا چاپر میں لگے سٹینڈ پر ۔۔ بلیک کوٹ ہوا میں لہرا رہا تھا جبکہ چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔
عمر کی ہوندیاں اے اے رولا کادا ۔۔ وہ چلائی ۔
طہ علوی ۔۔۔دو لفظ بولتے عمر نے فون بند کر دیا ۔۔۔
جبکہ شور سن کر لاریب بھی گھر سے باہر آئی تھی ۔
آسمانی رنگ کے سادہ سے سوٹ میں ڈوبٹا سلیکے سے لیے آنکھوں میں بےانتہا نفرت لیے وہ بھی اسے ہی گور رہی تھی ۔ چاپر لینڈ ہوا تو سبزے کو سکون ملا ایک چھوٹے درجے کا زلزلہ سا تھا اس پہاری پر۔
مس مرتضیٰ آپ اندر جائے ۔۔ شیروز نے بارعب انداز میں کہا ۔
میں تمہارے باپ کی نوکر نہیں ۔۔۔ دوسری طرف سے اکتائے ہوئے انداز میں کہا گیا تھا طہ کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے ۔
شیروز ۔۔۔ عمر نے ہولے سے پکارا چاپر کا انجن بند یو رہا تھا مگر پھر بھی اتنی آواز تھی کہ طہ ان کی سرگوشیاں سن نہیں سکتا تھا ۔
شیروز نے منہ موڑے بغیر ہنکارا بھرا ۔
لاریب کو بچا لو ۔۔ اس کی آواز ملتجی سی تھی ۔۔اب چاپر سے اکبر اتر رہا تھا جس کے ہاتھ میں بندوق تھی ۔۔
طہ نے اترتے اشارہ کیا ۔۔۔ اکبر نے وہ بندوق اس کے ہاتھ میں پکرائی ۔۔
لاریب کو بچا لو ۔۔۔بولتے وہ طہ کی طرف برھ گیا شیروز لاریب کی طرف جانے لگا جب طہ کی آواز پر اس کے قدم رکے ۔
شیروز علوی  گھر جاؤ ۔۔ شیروز نے ایک نظر اس کے پیچھے کھرے چاپر کو دیکھا جس کے پر اب بھی حل رہے تھے ۔۔ دوپہر کو وقت تھا مگر صاف آسمان پر زردی سی چھانے لگی تھی ۔
(کراچی میں ہیر نے شاہنواز کو کال کی تھی جو اسی وقت آ گیا تھا وہ اس سے ضد کر رہی تھی اسلام آباد جانے کی مگر وہ اسے انکار کر رہا تھا اس کی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ سیڑیاں تک چر اتر سکے ہوائی جہاز کا سفر تو دوور کی بات۔مگر وہ بضد تھی اور بل آخر وہ جیت گئی ۔۔ شاہنواز وہیل چیئر اسے لیے ائیر پورٹ کے لیے نکل گیا)
عمر ایک ایک قدم طہ ہی طرف لے رہا تھا ۔ جو پرسکون سا تھا ۔
جبکہ شیروز اسے اگنور کرتا لاریب کو زبردستی اندر لے جا چکا تھا ۔
تو سالے صاحب کیسی رہی چھٹیاں ۔۔ طہ نے ایسے پوچھا جیسے وہ سچ میں ویکیشن ہر آئے تھے ۔۔ عمر سلگ کر رہ گیا ۔
تم نے معاز کو مار دیا ۔۔ عمر نے غرا کر کہا ۔
آ آ آ ۔۔ ایک ادا سے بولتے اس نے گرے وحشت زدہ آنکھوں سے سیاہ گلاسز اتارے ۔
جہاں طہ علوی ہو وہاں صرف اس کی آواز اونچی ہو سکتی ہے ۔۔ سرد سے انداز میں بولتے اس نے عمر کے کندھے پر ہاتھ کا دباؤ دیا ۔
ویسے میری بیوی کا پیچھا یہ میرے کیو نہیں چھوڑتے بہن بہا دی کام ختم لیکن نہیں جب دیکھو کباب میں ہڈی بنتے رہتے ہو ۔۔۔ طہ نے گردن ترچھی کر کے کہا ۔
عمر شل سا رہ گیا ۔
لاریب ۔۔۔ شیروز نے اسے دونوں کندھوں سے پکر کر جھنجھوڑا ۔
ہمیں بھاگنا ہے ۔۔۔
عمر ۔۔۔ ایسی حالت میں بھی وہ عمر کو یاد کر رہی تھی شیروز کا دماغ گرم ہو گیا۔
مرنے والا ہے و۔۔۔
شیروز جو اونچی آواز میں چلایا تھا اس کمزور سے ہاتھ سے پرنے والے بھاری تھپر سے اس کی زبان کو قفل لگا تھا وہ وہی شل رہا گیا ۔
تم نے مجھے مارا ۔۔ اس نے صدمے کے عالم میں پوچھا ۔۔
میں بےوقوف ہو چیزیں جلدی سمجھ نہیں آتی اس کا مطلب ہر گز نہیں کہ میں تم جیسے مردوں کو نہیں سمجھتی ۔۔ وہ ٹھر ٹھر کر غصے سے بولی ۔
میرے جیسے مرد سے کیا مراد ہے تمہاری ۔دانت جباتے کہا۔
عمر کو مروا کر مجھے حاصل کرنا چاہتے ہو ۔۔
تمہارا دماغ خراب ہے ۔۔۔ ہے کون ہو تم ہاں تم جیسی ستر گومتی ہے میرے اگے پیچھے ۔۔۔ شیروز نے حقارت سے کہا ۔
بھابھی ہے وہ تمہاری شیروز علوی ۔۔ طہ کی گرج دار آواز پر وہ جھٹکے سے پلٹا ۔
طہ دروازے پر کھرا تھا جبکہ عمر وہی شل رہ گیا تھا ۔
شیروز نے ایک الجھی ہوئی نظر طہ کو دیکھا پھر لاریب کو ۔۔۔۔
یہ چوٹ کیسے آئے ۔۔  فکر مندی سے بولتے وہ اگے برھا ۔۔۔
طہ علوی محبت کرنے لگا ہے مرتضیٰ کی ابنارمل بیٹی سے ۔۔۔ حرا کے الفاظ کانوں میں گونجنے لگے تھے ۔
جو طہ علوی کسی کا زرا رعب برداشت نہیں کرتا وہ اتنے دھوکوں کے بعد بھی اس کی زرا سی چوٹ پر ترپ اٹھا تھا ۔
وہ لاریب کو حرا سمجھ رہا ہے ۔۔۔ اس کے کان میں کوئی بولا تھا ۔ خود غرض عاشق جسے بس محبوب کی جان پیاری تھی ۔
اس نے دیکھا طہ نے بندوق میز پر رکھ دی ہے وہ اب اس کا زخم دیکھنے ہر اسرار کر رہا تھا بہت ہی نرمی سے مگر لاریب خوف کی وجہ سے مسلسل قدم پیچھے لے رہی تھی ۔ اور پھر اس نے خود کو نیلم کے کمرے میں بند کر لیا


No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...