"سب اکٹھے ہیں
تو میں بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں ،بہت سوچا ہے میں نے ،اور یہی فیصلہ کیا ہے کہ اب
ہم کو شادی..."
" نہیں ہو
سکتی" باقر زمان نے گلزار احمد کی بات پوری نہیں ہونے دی درمیان
میں کاٹ کر بول پڑا تھا سب سے زیادہ چونکا ذوہیب تھا اور اُس کا رنگ بھی بدلا تھا
،باقی سب بھی بے آرام ہوئے تھے ۔
" کہنا کیا چاہا رہا ہے تو؟"
لہجہ خشک ہوا تھا ۔ " یہی کہ اصباح
کی شادی میں ذوہیب سے نہیں کر سکتا...اب جبکہ میں اس کی اصلیت اور ظرف جان چکا ہوں تو یہ ناممکن ہے کہ..."
"باقر ! ...کُھل
کے بات کر،ہوا کیا ہے ،کس اصلیت کی بات کر رہا ہے تو ،پہلیاں نہ بجھوا،سیدھی بات
کر" بیبو جی ! نے مداخلت کی۔
" خود ہی بتا دو
ذوہیب ! تمہیں کتنی نفرت ہے مجھ سے،اس
نفرت میں تم کس حد تک جا سکتے ہو...یہاں تک
کہ مجھے جان سے بھی مار سکتے ہو...ہوں" دانت پیس کر باقر زمان مخاطب تھا ضبط کئیے
بمشکل۔
"الزام لگا رہے
تم مجھ پر،کچھ نہیں کیا میں نے"
ذوہیب کا لہجہ مستحکم تھا کوئی لچک کمزوری نہیں تھی وہ ایک دوسرے سے ایسے مکالمہ کر رہے تھے جیسے
کمرے میں اکیلے تھے اور کوئی موجود نہیں تھا مگر ایسا تھا نہیں وہاں اور لوگ بھی
موجود تھے جو اب بے حد حیران تھے ششدر تھے ان دونوں کی باتوں کو سمجھ نہیں پا رہے
تھے۔
" تو اُس نے
یہ نئی پٹی پڑھائی ہے آپ کو،اس لئیے گئی تھی یہاں سے وہ " اصباح نے اچانک آ کر بے جا مداخلت کی اور
کرخت بے باک پُر اعتماد لہجہ اپنایا تھا
،ذوہیب کو بہت آسرا ملا تھا سکھ کا سانس
لیا تھا وہ ہلکا سا مسکرایا تھا بھائی بہن آمنے سامنے تھے۔وہ جانتا تھا اصباح اُس
کے خلاف کچھ نہیں سنے گی جوابی وار ضرور کرے گی،پہلے تو وہ اُس سے خفا تھا کہ عین موقع پر اُس نے بھاگنے سے انکار کر دیا تھا
مگر اب اُس کی آمد ذوہیب کو غنیمت لگی
تھی۔
"کس کی بات کر
رہی ہو تم ؟" باقر زمان نے پیشانی پہ
بل ڈالے پوچھا۔ " شنایا کی اور کس کی...اسی نے
بھیجا ہے ناں آپ کو ،مجھے اُس پر اعتبار
کرنا ہی نہیں چاہیے تھا " اُسے
افسوس تھا اورباقر زمان نے ناسمجھنے والے انداز میں آئبرو اُچکائے اور چہرہ پھیر کر بیبو جی! کی طرف دیکھا تو وہ بولیں۔
" شنایا چلی گئی
ہے یہاں سے کل رات" مگر اس بات پر
باقر زمان نے کوئی خاص ری ایکشن نہیں دیا جیسے
اُسے کوئی فرق ہی نہیں پڑا تھا وہ
نارمل ہی رہا ویسے بھی وہ کون سا اُس کے
لئیے اہم تھی جو اُس کے آنے جانے ،ہونے یا
نہ ہونے سے اُسے کوئی فرق پڑتا وہ تو کبھی بھی اُس کے لئیے تھی ہی نہیں،ہوتی تو جانے کا
غم یا ملال ہوتا۔
" تم نہیں
جانتی یہ انسان کتنا دھوکے باز ہے فریب کر
رہا ہے تمہارے ساتھ...جاؤ یہاں سے "
آرام تحمل سے سمجھایا ۔
" بھائی آپ..." اصباح نے بولنا چاہا۔ "
جاؤ یہاں سے اصباح" وہ گرجا ۔
"
باقر..." بیبو جی! نے ٹوکا وہ
اگلے ہی پل سنبھلا بیبو جی! کی
موجودگی نے اُس کے ہاتھ پاؤں اور زبان
مقفل کر دی تھی وہ اکیلا ہوتا تو اب تک ذوہیب کا گلا دبوچ چکا ہوتااب تو اُسے مزید
غصہ تھا کہ اصباح اُس کی وجہ سے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی بےباکی پہ اُتر آئی تھی۔اُس
کا ضبط بے ضبط ہونے کے قریب تھا۔
" بات کیا ہے
باقر! کیا بولے جا رہا ہے تو؟"
" شکر کریں
میں صرف بول رہا ہوں ورنہ اس نے اتنی کسر چھوڑی نہیں کہ اس سے بات
کروں"
"کیا کیا ہے اس
نے؟" نفیسہ نے پوچھا۔
" قاتلانہ حملہ
...مجھ پر،مروانے کی کوشش کی ہے اس نے مجھے،میری زندگی تھی جو گولی میرے سینے کی
بجائے بازو میں لگی۔لیکن بہتر تھا سینے کے
آرپار ہو جاتی" اُس نے اصباح کی طرف
دیکھ کر کہادکھ سے۔
"یہ الفاظ نہیں
کوئی دھماکا تھا جو سب کے ہوش اور
چیتھڑے اُڑا لے گیا تھا سب کُھلے منہ اور پھٹی آنکھوں سے باقر زمان کی طرف
دیکھ رہے تھے ایک بیبو جی! تھیں جن کی نگاہیں ذوہیب کے پل پل چہرے کے بدلتے
رنگ پہ تھیں۔ " کیا کہہ رہا ہے باقر؟" بیبو جی ! نے ذوہیب سے دوٹوک پوچھا،وہ بول نہیں سکا خشک لبوں پر زبان
پھیری،سب کی نظریں اُس پر جم گئیں وہ اُس
کے جواب کے منتظر تھے اُسے کوفت محسوس ہوئی اُلجھن،وہ بوکھلایا ہوا گویا ہوا۔ "
جھوٹ بول رہا ہے یہ،میں نے نہیں کروایا وہ تو اُس نے " ذوہیب حیران تھا باقر زمان کو ساری
حقیقت کا علم ہوا کیسے تھا اُنہوں نے تو بڑی پلائننگ سے اطہر کو پھنسایا تھا پھر
کیسے؟
" اُس نے کس
نے؟...بول ذوہیب " بیبو جی!
نے پُرتپش انداز میں پوچھا ،وہ نہیں بولا۔
" تو اتنا کیسے
گِر سکتا ہےذوہیب! اپنا ہی خون بہانے لگا
شرم لحاظ کہاں رکھ کے بھول گیا ہے تو...کیوں کیا ایسا جواب دے"
" نہیں کروایا
میں نے کتنی بار بتاؤں...وہ تو اُس "
"کس
نے...؟" بات دہرائی بیبو جی ! نے
گلزار احمد بھی پوچھنے لگا نفیسہ نے بھی بازو پکڑا وہ گھبرا گیا اتنا طاقت وار تو
تھا نہیں اگر ہوتا تو یوں چھپ کے نہ وار کرتا پھرتا۔
" ر...ریا نے
کروایا تھا یہ جانتا ہے اچھی طرح" وہ بوکھلاہٹ میں کیا بول گیا تھا یہ اندازہ
اُس پل ذوہیب کو نہیں تھا مگر وہ اپنے ہی لفظوں کے جال میں پھنس چکا تھا
۔
"ریا ...یہ کون ہے؟"
نفیسہ نے لب ہلائے تھے۔
" یہ ہے
ریا" اگلے ہی پل باقر زمان نےہاتھ
سیاہ چادر کے نیچے سے نکالا
جو اُس نے ڈارک
براؤن سوٹ پہ اُوڑھ رکھی تھی
جیب سے کچھ تصویریں نکالیں اور ذوہیب
پر اُچھال دیں اور پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو
گیا دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپائے۔ایک تصویر اصباح تک پہنچی جس میں ذوہیب
نے اُنگلی ریا کے گلابی لبوں پر رکھی ہوئی
تھی اور محبت پاش نگاہوں سے اُسے دیکھ رہا تھا۔اصباح اپنے قدموں پر ٹِک نہیں سکی
لڑکھڑائی تبھی آمنہ آگے بڑھی اُسے تھاما
مگر اُس کا سہار ا اصباح نے قبول نہ کیا ،جھٹک دیا اور کھڑے رہنے کے لئیے دروازے کا سہارا لیا...سب کا یہی حال تھا اُڑی
رنگت بے یقینی کی کیفیت اک پل میں کئی رشتوں کا تقدس مان بھرم ملیا میٹ ہو گیا تھا بیبو جی!کھڑی نہیں رہ
سکیں پیچھے ہٹ کر کرسی پہ ڈھہہ سی گئیں
،وہ جانتی تھیں ذوہیب باقر زمان سے خار رکھتا ہے مگر وہ نفرت کی اس حد سے واقف نہیں تھیں کہ وہ جان سے
مارنے پر تُل جائے گا ...اگلے ہی پل خاموش کھڑے ذوہیب پہ جو پہلا ہاتھ اُ ٹھا
وہ گلزار احمد کا تھا اور اُس کے
بعد نفیسہ نے روتے ہوئے
اُسے دھکے مار کر کمرے سے نکلا دیا اور خود
وہیں دیوار کا سہارا لئیے کھڑی رونے لگی تھی سب خاموش تھے بالکل چپ نہ گلزار احمد کچھ بولا
نہ ناصر۔نہ اصباح نہ آمنہ...سب ایک دوسرے سے نگاہیں چُرائے کھڑے تھے الفاظ ختم ہو گئے تھے یا شائد بے معنی؟
باقر زمان
نے چہرے پر ہاتھ پھیرا خود کو
سنبھالا اور بیبو جی! کے پاس آیا اُن کے سامنے زمین پر بیٹھ گیا سر جھکائے اور بیبو جی ! نے کانپتا ہاتھ اُس کے
سر پہ رکھ دیا تھا ...مگر بات یہیں ختم
نہیں ہوئی تھی یہ آغاز تھا .
٭٭٭٭٭٭
No comments:
Post a Comment