Pages

Wednesday, 10 May 2023

Leo is...? |Bechari Ruffi |Sang shikan|Abeera Hassan |Episode 12| Urdu ...






وہ اشعر کے ساتھ اس کی گاڑی میں آ بیٹھی تھی۔۔ یشعب انھیں چھوڑنے نیچے تک آیا تھا۔۔۔ روفایہ کو دھیمی آواز میں کچھ ہدایات دینے کے ساتھ ہی اس نے روفایہ کو ایک چھوٹا سا کالے رنگ کا بیگ بھی تھما دیا تھا کہ وہی رقم تھی جو روفایہ نے نکاح والے دن یشعب کو اپنی مدد کے عوض دی تھی۔۔۔

"یہ نکاح آپ کے لئے ایک سودا تھا "روفایہ یشعب" مگر میں نے آپ کو اپنے دل کی مکمل رضا سے اپنایا تھا۔۔۔ یہ وہ تمام رقم ہے جو آپ نے مجھے اس دن دی تھی۔۔۔۔"

وہ روفایہ کی خوبصورت آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا جو رات بھر کے رتجگے اور رونے کے باعث سرخ ہوکر سوج رہی تھیں۔۔۔ یشعب کا دل ایک بار اس کی ان خوبصورت جھیل سی آنکھوں کو دیکھ کر ڈگمگایا تھا۔۔ اس کا دل چاہا تھا کہ وہ ان خوبصورت آنکھوں کے سارے آنسوں اپنے لبوں سے چن لے۔۔ اس کے دل کے سارے درد مٹا کر روفایہ کے خوبصورت ہونٹوں کو مسکراہٹ سے آشنا کر دے مگر فی الحال وہ اپنے دل کی چاہت کو پورا نہیں کر سکتا تھا تبھی ایک گہری سانس کھینچتے ہوئے اپنی نگاہوں کا زاویہ بدل گیا تھا۔۔

جبکہ روفایہ بھی اپنی آنسوں پیتی ہوئی وہ چھوٹا سا بیگ تھامتے ہوئے گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی تھی۔۔۔ اس کا دل رات سے درد کا پکا ہوا پھوڑا بن چکا تھا۔۔۔ آنکھیں رات سے آنسوؤں کا سمندر بن چکی تھیں۔۔۔ وہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی تھی ۔۔۔ اس کے بیٹھتے ہی اشعر نے گاڑی اسٹارٹ کر دی تھی۔۔۔ یشعب اب بھی باہر ہی کھڑا تھا مگر روفایہ نے ایک نظر بھی اس پر نہیں ڈالی تھی۔۔ اس نے یشعب کا دیا ہوا پیسوں کا بیگ بھی لاپرواہی سے سائیڈ پر ڈال دیا تھا۔۔۔ گاڑی ایئر پورٹ کی جانب گامزن تھی مگر اس کا دل سخت بے چین ہو رہا تھا۔۔۔ اسے پاکستان نہیں بلکہ واپس اپنے گھر "الحیات" پہنچنا تھا لیکن اپنے سامنے موجود اس "گدھے" کی آنکھوں میں دھول جھونک کر وہ اس چلتی گاڑی سے کیسے نکلتی۔۔۔؟؟؟؟ اشعر موت کے فرشتے کی طرح اس کے سر پر سوار تھا۔۔۔ وہ اپنی آنکھیں صاف کرکے چلتی گاڑی سے باہر کے نظاروں میں گم یہی سوچ رہی تھی کہ وہ کس طرح اس گاڑی سے نکل کر بھاگے مگر اسے کوئی بھی طریقہ نہیں سوجھ رہا تھا۔۔ اس کا فون بھی نجانے کہاں تھا ورنہ وہ حرم یا پھر اپنے باڈی گارڈز کو ہی کال کرکے ان سے مدد لے لیتی۔۔ مگر وہ اس کی مدد کیسے کرتے۔۔؟؟؟ وہ تو رات بھی اسے اکیلے بے یارومددگار چھوڑ کر چلے گئے تھے۔۔ تبھی اس یشعب ازلان بٹ کو اپنی اصلیت دکھانے کا موقع مل گیا تھا۔۔۔ کل رات سے اب تک وہ خود کو جتنا سخت بے بس محسوس کر رہی تھی اتنا مجبور و بے بس تو اس نے خود کو شاید اپنی پوری زندگی میں نہیں سمجھا تھا۔۔ ابھی گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے ہی یشعب نے اسے سختی سے وارننگ بھی دے ڈالی تھی کہ اگر وہ شرافت کے ساتھ اشعر کے ساتھ پاکستان چلی جائے گی تو وہ اسے کچھ نہیں کہے گا لیکن اگر اس نے کسی بھی قسم کی چالاکی کرنے کی کوشش کی تو وہ اس کا ایسا حشر کرے گا کہ روفایہ اس کے نام سے بھی پنہا مانگنے لگے گی۔۔۔ وہ شخص واقعی جنگلی اور وحشی تھا۔۔۔ اس کے جنگلی پن کے مظاہرے وہ رات اچھی طرح دیکھ چکی تھی اور صبح بھی یشعب نے اس کے ساتھ جو جارحانہ رویہ اپنایا تھا اس نے بھی روفایہ کو اس سے بری طرح خوفزدہ کر دیا تھا۔۔۔ آگے بھی وہ اگر اپنی کسی غلطی کے بعد اس جنگلی شخص کے ہتھے چڑھ جاتی تو وہ اس کا جو حال کرتا اسے سوچ کر ہی اس وقت بھی روفایہ کے رونگھٹے کھڑے ہونے لگے تھے۔


1 comment: