"ہیلو"سپاٹ لہجے میں بولی۔
"کس سے بات کررہی تھیں کچھ احساس ہے کب سے
کال کر رہا ہوں۔"وہ صحیح معنوں میں تپ اٹھا تھا ابھی میٹنگ سے فارغ ہوا تھا۔
"بھابھی سے بات کررہی تھی مجھے نہیں پتا
تھا کہ تم کال کررہے ہو۔"لہجہ ہنوز وہی تھا وہ ایک گہری سانس بھرکر رہ گیا۔
"ہم مشن پر نکل رہے ہیں ماما کو بتا دینا۔"اس
کا لہجہ بھی اکھڑا اکھڑا ہوگیا تھا۔
"مگ۔۔مگر تمہیں مل کر جانا چاہیئے تھا ان
سے۔"اسکا دل یکدم بےچین ہوگیا ساری لاتعلقی کہیں جاسوئی تھی۔
"نہیں ارجنٹ نکلنا ہے بس ان سے کہنا دعا
کریں۔"
"جب سب انہی سے کہنا تھا تو مجھے کال کرنے
کی زحمت کیوں کی۔"
" ان کا فون نہیں لگ رہا تھا۔"
"اوہ۔۔ٹھیک میں کہہ دوں گی.. اللہ حافظ۔"
"نہیں رکو!"
"کیوں مزید کوئی پیغام دینے ہیں؟"
"ہاں کسی سے کہنا اتنی ٹھنڈ میں کھلی ہوا
میں نہ بیٹھے مزید بیمار ہوجائے گی۔"
دانین کا دل بہت زور
سے دھڑکا تھا۔
"میں نہیں کہوں گی نوکر نہیں ہوں تمہاری۔"
"کوئی بات نہیں میں واپس آکر سارے حساب برابر
کرلوں گا۔"
"اونہہ حساب کتاب میں پکے ہوتے تو کسی کا
اتنا سخت امتحان نہ لیتے۔"عدن کی کیفیت ذہن میں آئی تو یکدم ہی بہت تلخ ہوگئی۔
"بہت طنز کرنے لگی ہو صحیح کی بیوی بنتی
جارہی ہو۔"
"غصہ مت دلاؤ سمجھ آئی۔"
"اوکے نہیں دلاتا۔۔۔چلتا ہوں انشاءاللہ اگر
زندگی رہی تو روبرو بیٹھ کر شکوے سنوں گا۔"اسکے گھمبیر لہجے پر دانین کو اپنی
آنکھیں نم ہوتی محسوس ہوئیں، چند لمحے اسی طرح خاموشی کی نظر ہوگئے۔
"الله حافظ۔۔۔"رندھی ہوئی آواز میں
کہتی کال منقطع کرکے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی۔
٭٭٭٭
No comments:
Post a Comment