تُو نے دیوانہ بنایا
تو میں دیوانہ بنا
اب مجھے ہوش کی دنیا
میں تماشا نہ بنا
وہ تھکا تھکا اپنی
شرٹ کی سلیوز فولڈ کرتا لاؤنج میں داخل ہوا تو عابدہ پروین کی درد بھری آواز نے اسکا
ویلکم کیا تھا آواز کچن سے آرہی تھی وہ حیران سا تجسس کے مارے اسی جانب بڑھ گیا،ڈارک
بلو گھٹنوں تک آتی شرٹ اور پجامے میں گیلے بال پشت پر بکھرائے دانین حسن آئی پیڈ کا
فل وایلم اون کیے خود بھی ساتھ ساتھ گنگنارہی تھی اور باول تھامے کچھ مکس کررہی تھی۔
یوسفِ مصرِ تمنا تیرے
جلوؤں کے نثار
میری بیداریوں کو خوابِ
زلیخا نہ بنا
وہ بے اختیار ہی آگے
بڑھا تھا دانین کی اسکی جانب پشت تھی اسکے گھنے بالوں کو غور سے دیکھنے لگا۔
ذوقِ بربادی دل کو
بھی نہ کر تُو برباد
دل کی اُجڑی ہوئی بگڑی
ہوئی دنیا نہ بنا
اور اچانک ہی اسکے
بال اپنے ایک ہاتھ سے سمیٹے تھے دانین چونک کر پلٹی اور اپنے بال اسکے ہاتھوں میں دیکھ
کردنگ ہی تو رہ گئی تھی۔۔۔
عشق میں دیدہ و دل
شیشہ و پیمانہ بنا
جُھوم کر بیٹھ گئے
ہم وہیں میخانہ بنا
اسکے حسین کچھ سہما
ہوا تاثر لیے نین میں جھانک کر بالاج ذوالفقار کو اپنا گلیشیئر جما دل قطرہ قطرہ پگھلتا
محسوس ہوا۔۔۔
یہ تمنا ہے کہ آزادِ
تمنا ہی رہوں
دلِ مایوس کو مانوسِ
تمنا نہ بنا
"کیا ہوا۔۔۔"اس
نے ہمیشہ کی طرح پریشانی سے پوچھا مگر وہ کب اسکی سن رہا تھا وہ تو غزل اور اسکے بولتے
نین کی سرگوشیاں سن رہا تھا، اسکے سارے بال ایک کندھے پر ڈال دیئے۔ دانین کا دل بہت
تیزی سے دھڑکا تھا اسکے ہاتھ کو بالوں سے ہٹانا چاہا جب بالاج نے اسےخود سے قریب کرلیا۔دانین
کو اپنا سانس اٹکتا محسوس ہوا یہ وہ شخص تو نہ تھا جسے اس نے آج تک دیکھا تھا۔۔۔
نگاہِ ناز سے پوچھیں
گے کسی دن یہ ذہین
تُو نے کیا کیا نہ
بنایا کوئی کیا کیا نہ بنا
اسکے کان کے قریب جھک
کر گھمبیر لہجے میں بولتا اپنا لمس اسکے کان کی لو پر چھوڑ گیا دانین کو لگا وہ پتھر
کی ہوچکی ہے۔
"ایک انچ بھی اگر میری جاگیر میں سے کٹوائی
تو دانین حسن سچ کہہ رہا ہوں ہر لحاظ اور خود پر باندھے بندھ سب بھول جاؤں گا۔"اسکے
نم بالوں میں انگلیاں الجھاتا بہت پرسکون لہجے میں بولا اور اسے چھوڑتا کچن سے باہر
نکل گیا، دانین نے سلیپ پکڑ کر بہت مشکل سے خود کو سنبھالا تھا۔ وجود میں ہلکی سی کپکپی
طاری ہوگئی تھی۔ ذہن میں دوپہر والی بات آئی تو لبوں پر خود بخود ہی مسکان بکھرتی چلی
گئی۔
"زیادہ شارٹ مت کرانا دانین ورنہ مجھے بھی
غصہ آجانا ہے آنٹی کی طرح۔"اس کے بال کٹوانے کی خواہش پر رودابہ نے وارن کیا وہ
لوگ اس وقت کے بالاج کے روم میں بیٹھی تھیں، وہ زیادہ تر اپنے کاموں میں مصروف رہتا
تھا یا اسٹڈی میں ہی پایا جاتا تھا اپنے کمرے میں صرف ڈریس چینج کرنے ہی آتا تھا۔
"چلو نکلو یہاں سے اب تو دیکھنا بینگز کرواؤں
گی تھک چکی ہوں، اتنے بڑے بال سنبھال سنبھال کر۔"اپنی گھنی پونی ٹیل کمر کے پیچھے
ڈالتی اکتاکر بولی تھی۔
"مرو تم تو دیکھنا صبوحی آنٹی سیدھا کریں
گی۔"اسکی کمر پر ہاتھ مار کر بیڈ سے اتری۔
"میں آنٹی سے کہہ چکی ہوں انہوں نے کل کا
اپائنٹمنٹ فکس کروا دیا ہے۔"اطمینان سے کہتی دوپٹہ سائیڈ پر ڈالتی سیدھی ہوکر
لیٹ گئی تبھی بالاج کمرے میں داخل ہوا تھا اس پر نظر پڑتے ہی گڑبڑا کر اٹھ بیٹھی تھی۔
"بھائی مبارک ہو آپ کی بیوی پرکٹی ہونے والی
ہے۔"ہنس کرکہتی باہر نکل گئی بالاج نے ایک نظر اسے دیکھا جو عجلت میں سلیپرز پہنتی اسی کے پیچھے نکل گئی تھی۔
No comments:
Post a Comment