لو
کیا میں تمہیں نہیں جانتی!"وہ اپنے بھورے گھنگرالے بالوں کی لٹ کو انگلی میں
گھماتے ہوئے مسکراتے ہوئے بولی۔
"اف۔۔کیا ہی عجیب قسمت ہے ۔۔جو تم سے آکر ٹکرایا ہوں۔میجر
عمر کی قسمت پھوٹی ہے جو تمہیں پسند آیا ہے۔کروں گا بات اب !"
"کیا بات کروگے؟"وہ یک دم ہی پرجوش دکھائی دینے لگی۔اس
کی سیاہ بڑی بڑی آنکھیں چمک اٹھیں۔کبیر کے
دل میں ایک ٹھیس سی اٹھی تھی۔کاش یہ چمک ان خوبصورت آنکھوں میں اس کے نام پر ابھرتی۔اگر
ایسا ہوتا تو وہ اس چمک پر ساری کی ساری دنیا فراموش کردیتا۔وہ کچھ پل اسے دیکھتے
رہنے کے بعد دوسری جانب دیکھتے بولا۔
"
ایک خبطی صحافی خاتون ہیں محترمہ ندیدی۔۔"
"بدتمیز! نمیرہ۔۔" اسی پل میز کے نیچے سے اس کے پیر نمیرہ
کا جوتا پڑا۔کبیر بلبلا اٹھا
"ہاتھ بہت چلتے ہیں تمہارے کسی دن ٹارچر سیل میں لاک کردوں
گا۔جھوٹے مقدمے لگاکر بتارہا ہوں۔" اس نے اسے زہرآلود نگاہوں سے گھورا۔نمیرہ
نے اسے استہزاء انداز میں دیکھا جیسے آنکھوں ہی آنکھوں میں چیلنج کررہی ہو کہ
کرسکو تو کرکے دکھاؤ۔
"چلو چلو آگے بتاؤ۔پولیس کی شامت نہیں آئی جو صحافیوں سے
پنگے لیں گے۔"وہ اسے مسکراتا دیکھ ہاتھ جھلاّکر بولی۔
"جاکر کہہ دوں گا یہ محترمہ دل و جان سے آپ پر فدا ہے کچھ
نظر کرم فرماؤ۔"وہ تپ کر بولا۔اس کے لہجے میں اس پل گہری چبھن تھی جو نمیرہ
محسوس نہ کرپائی۔
"زیادہ لکھنوی اردو دان بننے کی ضرورت نہیں ہے کبیر!"وہ
چڑکر بولی۔
"تو جاکر خود ہی پروپوز کردو۔ویسے بھی اکیسویں صدی ہے سب
چلتا ہے۔میں جارہا ہوں میری ڈیوٹی ہے۔خود تو تم ہر وقت فارغ رہتی ہو تمہیں کیا پتا
ایک اے ایس پی کیا کیا زمہ داریاں ہوتی ہیں۔"وہ ناگواری سے کہتا میز سے اٹھنے
لگا۔اس کا موڈ یک دم بری طرح بگڑ چکا تھا۔
"اے ایس پی کی زمہ داریوں کا تو پتا ہے پر تم جیسے نکمے پولیس
افسر جس کو غلطی سے اے ایس پی کا عہدہ مل گیا ہے ۔اس کا کام بس ہر چار ماہ بعد
اپنے چچا کے حکم پر معطل ہونا ہے۔۔جارہی ہوں چائے کے لیے شکریہ۔۔"وہ بھی میز
سے اٹھتے اپنا پرس اور سن گلاسز لیتی اٹھ کھڑی ہوئی۔اپنے مخصوص بے نیاز لہجے میں
کہتی پلٹ کر جانے لگی۔
No comments:
Post a Comment