Pages

Wednesday, 2 February 2022

Zeher e zuban by Andalib

 زہر زباں ۔۔۔

 

 

 

دنیا میں پاۓ جانے والے زہر کی بہت سی قسمیں ہیں جو کہ انسان کو موت کے کھاٹ اتارنے میں پل نہیں لگاتی اور ان خطرناک ترین زہر کی قسموں میں polonium سب سے زیادہ خطر ناک مانی جاتی ہے یعنی کہ پہلے نمبر پر یہی ہے اس کے بعد Botulinum toxin اور Brodifacoum وغیرہ آتی ہیں یہاں پر غور طلب بات یہ ہے کہ جو زہر زبان پر انسان لیے پھرتا ہے اس کو کس نمبر پر رکھا جاۓ کیا اس معاشرے میں زبان کے زہر سے زیادہ کوئی اور زہر بھی خطر ناک ہو گا زبان کا زہر بھی تو چلتے پھر تے انسانوں کو قبر میں دھکیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔آج انسان کی زبان سے زیادہ تباہ کن polonium بھی نہیں ہو گا ہر زہر کا تریاق بھی ہوتا ہے مگر زبان کے زہر کا آج تک کوئی تریاق نہیں بنا سکا ۔ آج  ہمارے معاشرے میں لوگ اپنے الفاظ اپنی گفتگو کے زہر سے لوگوں کو مار رہے ہیں آج حضرت انسان دانتوں میں کسی ایٹم بم سے زیادہ خطر ناک ھتیار لیے پھر رہا ہے جو انسانیت کا قتل عام کر رہی ہے

 

 

بے خبری تو اس حد تک ہے کہ ہماری وجہ سے کوئی مر گیا ہے ہمیں پتا تک نہیں کے ہمار ے الفاظ زہر بن چکے ہیں کیا ایسا نہیں ہے ؟؟ آج لوگ دوسروں کی ظاہری صورت کو لے کر  دھجیاں بکھر دی جاتی ہیں اور پھر بڑے انداز سے just kidding کا نام  دے دیا جاتا ہے کبھی کسی کے رنگ کا مذاق تو کبھی کسی کے بونے قد پر قہقہے ۔ ہم انسان تو انسان کہلانے کے قابل نہیں رہے یہ جو خوبصورتی بدصورتی کے میعار محدود عقل والے انسان ہیں ورنہ اس ذات پاک کی بنائی ہوئی ہر تخلیق لاجواب ہے

 ۔

آج کا نام نہاد modern انسان بھی جہالت والے زمانے کا پيرو کار بن چکا ہے جیسے عرب کے بدو اللّه تبارك تعالیٰ کی تخلیقات کا مذاق اڑاتے اور پھر اللّه نے ان کی بستیاں ان لوگوں سمیت تباہ کر دی تو پھر آج کا انسان بھی اس وسیع اختیارات والی زات کی گرفت سے باہر نہیں لہٰذا ابلیس مت بنے جس نے صرف مادہ دیکھ کے سجدے سے انکار کر دیا اور اس سجدے کا حکم دینے والی ذات کو بھلا بیٹھا اپنی اسی زبان اور سوچ کے زہر سے جنت گنوا بیٹھا

اور پھر آج انسان اپنے رشتوں کو اس زبان کے زہر کی وجہ سے گنوا رہا ہے

نیلسن منڈیلا نے کہا تھاکہ......

"رشتے کھبی بھی قدرتی موت نہیں مرتے انہیں انسان خود مارتا ہے"

اور آج یہی سب ہو رہا ہے آج ہم اپنی نفرت اپنی زبان کے زہر سے اپنے رشتوں کا خون کر رہے ہیں ہمارے الفاظ لوگوں کا قتل کر رہے ہیں اسی لیے کہتے ہیں

گفتگو کیجیے مگر احتیاط کے ساتھ

لوگ مر بھی سکتے ہیں الفاظ کے ساتھ

ہم دوسروں کو برا اور خود کو اچھا ثابت کرنے کرنے کے لیے ایسا زہر اس زبان سے نکالتے ہیں اگلا انسان زندہ لاش بن کے رہ جاتا ہے اس کی روح بھی گهایل ہو جاتی ہے لوگ سیاست دانوں ادا کاروں پر تنقید کرنا ان کی ذات کی دھجیاں بکھیرنا اپنا حق سمجھتے ہیں آخر کیوں ہم اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کیا وہ برے ہیں تو ھمارے پاس جنت کی کنجیا ہیں کیا ؟؟

  

 قرآن تو کہتا ہے

  

اے ایمان والو ! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑاے ممکن ہے وہ لوگ تم سے بہتر ہو اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا مذاق اڑاے ممکن ہے وہی ان مذاق کرنے والیوں  سے بہتر ہوں ۔

 القران

 

 

 

لہٰذا ان کسی کے خلاف زبان کا استعمال کرنے سے پہلے یہ سوچ لینا چاہیے کہ ہو سکتا اگلا ہم سے بہتر ہو یہ زہر زباں کسی کو مار سکتا ہے اور قتل تو پھر کسی صورت معاف نہیں تو پھر اپنی موت سے پہلے اپنی زبان کا ذائقہ چکھ لیں کہیں یہ زہر تو نہیں ؟؟

 

    


از عندلیب



No comments:

Post a Comment