Pages

Wednesday, 5 January 2022

My girl by Zanoor Writes

               

Is a social romantic novel by the writer 

She has written many stories and has large number of 

fans waiting for her novels 

she has written in

Prime Urdu Novels .

Readers Choice 

This is the  group which per mote  the writer to write online and 

show their writing abilities and skill .

We give a platform for the new minds who want to write and show 

the power of  their words 


Mostly writer shows us the reality and stories 

which are around us 

They have such   ability to guide us through their 

words and stories 

Novels are available  Here as in PDF and Online Read .

You can download through the links and  can read them .


If you find any issue in download or online reading links please 


watch the video given in link at the end of the links 

Here is her novel to read and to download 

رش نے آنکھیں کھول کر اپنے ارد گرد دیکھا تھا۔وہ کسی بوسیدہ سی عمارت کے اندر تھی۔ہر جگہ مٹی اور دھول کے ساتھ مکڑی کے جالے موجود تھے۔
کچھ دور سے اسے لوگوں کے قہقہوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔خود کو اکیلا اور بے بس پاکر خوف کی ایک لہر اس کے وجود میں سرایت کرگئی تھی۔
یزدان نے اسے گھر سے نکلنے سے منع کیا تھا۔اب اسے خود پر شدید غصہ آرہا تھا۔
اسے کرسی سے باندھا گیا تھا۔دونوں ہاتھ اس کے پیچھے کی جانب مضبوطی سے باندھے گئے تھے۔وہ کوشش کرنے کے باوجود بھی خود کو آزاد نہیں کرسکتی تھی۔
باتوں کی آوازیں اپنے قریب آتی محسوس کرکے زرش اپنی آنکھیں بند کرکے بےہوش ہونے کا ناٹک کرنے لگی تھی۔
یہ ابھی تک اٹھی نہیں۔۔
شیر خان نے یزدان کے آنے کے بعد اسے مارنے کا کہا تھا۔ابھی اسے بےہوش ہی رہنے دو۔
وہ دو آدمی آپس میں باتیں کررہے تھے۔زرش ان کی باتیں سن کر ڈر گئی تھی۔وہ اسے مارنے کا پلان بنا رہے تھے۔
زرش کسی بھی طرح سے یہاں سے نکلنا چاہتی تھی۔اپنے ارد گرد خاموشی محسوس کرکے اس نے اپنی آنکھیں کھولی تھیں۔خوف و بےبسی سے شفاف موتی اس کی آنکھوں سے نکلتے بےمول ہونے لگے تھے۔
****************
خان میں مزید صبر نہیں کرسکتا۔دو دن ہوگئے ہیں زرش کو لاپتہ ہوئے۔یزدان بےبس سا بول رہا تھا۔
تم حوصلہ رکھو یزدان میں اپنی پوری کوشش کر رہا ہوں۔خان لب بھینچ کر بولا۔وہ زرش کو کچھ نہیں ہونے دینا چاہتا تھا لیکن ابھی تک انھیں کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔
کب تک انتظار کرو خان ؟ اب مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا۔یزدان اونچی آواز میں بولتا غصے سے لمبے لمبے ڈھگ برتا نکل گیا تھا۔
تم نے بھی کچھ کہنا ہے تو بول دو۔اپنے پیچھے زمل کی موجودگی محسوس کرتا خان پیچھے مڑتا ہوا بولا۔زرش کے کیڈنیپ ہونے کے فورا بعد زمل کو گھر واپس بلا لیا گیا تھا۔
مجھے امید ہے آپ مجھے مایوس نہیں کریں گے۔زمل نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
اس کا دل اندر سے اپنی بہن کے لیے کانپ رہا تھا۔لیکن وہ خود کو مضبوط ظاہر کر رہی تھی۔
خان نے اس کے یقین بھرے انداز پر کچھ نہ کہا۔وہ جب اسے شیر خان سے نہ بچا سکا۔پھر زرش کو کیسے بچا سکتا تھا۔
اپنا سر جھٹکتا وہ زمل کے قریب سے گزرتا اس کے کان کی طرف جھکا۔
تمھاری بہن کے محفوظ ہونے کی میں کوئی گارنٹی نہیں دوں گا۔خان کی بات نے اسے ڈرا دیا تھا۔وہ اس سے امید لگائے ںیٹھی تھی کہ شاید وہ ایک بار پھر زرش کو بچا لے گا۔ اس نے تو اس بار زمل کی ہمت ہی توڑ دی تھی۔
خان اسے ایک نظر دیکھتا باہر چلا گیا تھا۔زمل خود کو تسلی دیتی واپس کمرے میں لوٹ گئی تھی۔
*************
یزدان وئیر ہاؤس میں موجود تھا۔جہاں لوگوں کو وہ ٹارچر کرتے تھے۔کسی شخص کو ٹارچر کرنے کے بعد وہ اپنے ہاتھ صاف کرتا باہر نکلا تھا۔اپنا موبائل نکالتے اس کی سب سے پہلی نظر سکرین پر موجود اناؤن میسج پر پڑی تھی۔
میسج کھولتے ہی اس میں زرش کا پتا دیا گیا تھا۔وہ ایک پل کو حیران ہوا۔تیزی سے باہر کی جانب بڑھتے وہ اپنی گاڑی میں بیٹھا تھا۔
مطلوبہ ایڈریس کی جانب روانہ ہوتے اس نے خان کو کال ملائی تھی۔
مجھے زرش کا پتا مل گیا ہے خان۔۔میں اسی طرف جا رہا ہوں۔میں تمھیں ایڈریس سینڈ کرتا ہوں۔۔تم بھی آجاؤ۔۔
تمھیں زرش کا پتا کہاں سے ملا ؟ خان نے حیرانی سے پوچھا۔
مجھے میسج ملا ہے۔۔خان میں مزید دیر نہیں کرنا چاہتا۔اس کی آواز میں بےصبری تھی۔
یہ ٹریپ ہے یزدان تم میرا انتظار کرو۔۔اکیلے مت جاؤ۔۔یزدان کی بات سنتے خان نے سخت لہجے میں کہا۔مگر دوسری جانب بیٹھا دیوانہ اپنی بیوی سے ملنے کو بےتاب تھا۔تبھی خان کی بات اگنور کرتا بولا
خان اگر یہ ٹریپ بھی ہوا مجھے فرق نہیں پڑے گا۔۔یزدان بولتا مزید خان کی بات اگنور کرتے کال کٹ کر گیا تھا۔
خان اپنی گن رکھتا تیزی سی باہر کی جانب بڑھا تھا۔
خانم کا خیال رکھنا۔میری اجازت کے بغیر کسی کو گھر میں داخل مت ہونے دینا۔خان اپنے آدمی کو ہدایت دینے لگا۔
کہاں جا رہے ہیں آپ ؟ زمل جو اپنے کمرے سے نکلتی کیچن کی جانب جارہی تھی۔خان کی اونچی آواز سنتی باہر آئی تھی۔
کیا زرش مل گئی ہے ؟ خان کے بولنے سے پہلے اس نے مزید پوچھا۔
کسی نے زرش کا ایڈریس یزدان کو سینڈ کیا ہے۔۔میں وہاں ہی جا رہا ہوں۔۔تم گھر سے باہر مت نکلنا۔۔خان سنجیدگی سے اس کی نقاب میں چھپی آنکھوں کو دیکھتا بولا
میں بھی آپ کے ساتھ جاؤں گی۔۔زمل ایک دم سے بولی۔
وہاں تمھارا کوئی کام نہیں ہے۔۔چپ کرکے اندر واپس جاؤ۔۔خان کے سرد لہجے کو نظر انداز کرتی وہ خان کے پیچھے چلنے لگی۔
خان اسے اگنور کرتا لمبے لمبے ڈھگ بھرتا گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔زمل بھی تیزی سے گاڑی کا دروازہ کھولتی اس کے ساتھ بیٹھ گئی تھی۔
آپ جو مرضی کہیں میں آپ کے ساتھ ہی جاؤں گی۔۔زمل کے ضدی لہجے پر خان نے غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچ لی تھیں۔
گاڑی سٹارٹ کرتا وہ فل سپیڈ سے چلانے لگا تھا۔وہ جگہ تقریبا ایک گھنٹہ دور تھی۔راستے میں موسم خراب ہونے لگا تھا۔اچانک ہی بادل آسمان پر چھاتے تیز بارش برسانے لگے تھے۔
***************
اسے کھول دو اور باہر نکالو۔۔کرسی پر باندھی ہوئی زرش کی طرف دیکھتا ایک آدمی بولا۔
زرش کو پتا تھا وہ لوگ کیا کر رہے تھے۔وہ اسے مارنے والے تھے۔وہ ان کی ساری باتیں پہلے ہی سن چکی تھی۔
اپنی آنکھوں میں جمع ہوتے آنسو اس نے بڑی مشکل سے روکے ہوئے تھے۔۔
زرش کو ایک ہی جگہ کھڑے دیکھ کر ان میں سے ایک نے زرش کو دھکا دیا تھا۔
چلو بی بی۔۔۔زرش خود کو سنبھالتی ان کے پیچھے چلنی لگی۔تیز بارش کی آواز اسے صاف سنائی دے رہی تھی۔
اس سے پہلے ہم تمھیں مار دیں بھاگو۔۔۔وہ تقریبا دو لوگ تھے جن میں سے ایک نے اپنا فون دیکھتے دوسرے کو اشارہ کیا تھا جس نے زرش کے سر پر گن تان کر اسے بھاگنے کا کہا۔۔
زرش کانپتی ٹانگوں سے بارش میں اندھا دھند بھاگنا شروع ہوئی تھی۔ایک گاڑی تیزی سے اس کے سامنے رکی تھی۔
یزدان کو باہر نکلتا دیکھ کر وہ خوش ہوتی اس کی جانب بڑھنے لگی تھی جب اپنے پیٹ میں شدید تکلیف اٹھتی دیکھ کر اس نے نیچے کی جان دیکھا جہاں تیزی سے خون اس کے جسم سے نکل رہا تھا۔
یزدان جو خوش ہوتا اس کے قریب بڑھنے لگا تھا۔اس کے وجود کو نیچے گرتے دیکھ کر اس نے جلدی سے تھاما تھا۔
زہ ته سرہ مینہ کوم (I love You) زرش کے منہ سے الفاظ ٹوٹ پھوٹ کر ادا ہو رہے تھے۔
زما زڑگیہ۔۔۔اس کے منہ سے یہ الفاظ سن کر یزدان ساکت ہوا تھا۔
زرش کو آنکھیں بند کرتے دیکھ کر یزدان نے دیوانوں کی طرح اس کا چہرہ تھپتھپایا تھا۔
زرش۔۔زرش۔۔زرش کا بے جان سا وجود اس کو بھی صدمے میں مبتلا کر گیا تھا۔
تیز بارش میں زرش کا خون سے بھرا وجود تھامے یزدان ساکت بھی ساکت سا بیٹھا تھا۔
اس کی تھمی سانسیں ، ساکت سی دھڑکن نے یزدان کو پتھر کا بنا دیا تھا۔
زرش کے وجود سے نکلتا خون بارش کے پانی میں بہتا سب کچھ سرخ کر رہا تھا۔یزدان نے اسے کھو دیا تھا اپنی محبت کو ، اندھیرے سے روشنی میں لے جانے والی واحد انسان کو،اپنے دل کو۔۔۔
زرش کی بند آنکھیں اور پیلے چہرے کو دیکھتے اس کی آنکھ سے آنسو نکلتا بارش کے پانی میں کہیں گم سا ہو گیا تھا۔


 Download Link 


PDF LINK 1

PDF LINK 2

PDF LINK 3






Click on the READ MORE  button to continue reading


If you have problem in download please click this Below link 

No comments:

Post a Comment