Pages

Sunday, 12 December 2021

Medical store per utarti ababelen by Dr Babar Javed

   

میڈیکل اسٹور پر اترتی ابابیلیں👍

( ڈاکٹر بابر جاوید)

 

(زرا نم ھو تو یہ مٹی ......)

 

سیلزمین سے دوائیں نکلوانے کے بعد، پیسے دینے کے لیے جب کائونٹر پر پہنچا تو مجھ سے پہلے قطار میں دو لوگ کھڑے تھے۔

سب سے آگے ایک بوڑھی خاتون، اس کے پیچھے ایک نوجوان لڑکا۔

میری دوائیاں کائونٹر پر سامنے ہی رکھی تھیں اور ان کے نیچے رسید۔ ساتھ ہی دو اور ڈھیر بھی تھے جو مجھ سے پہلے کھڑے لوگوں کے تھے۔

مجھے جلدی تھی کیونکہ گھر والے گاڑی میں بیٹھے میرا انتظار کررہے تھے۔۔۔ مگر دیر ہورہی تھی کیونکہ بوڑھی خاتون کائونٹر پر چپ چاپ کھڑی تھی۔

میں نے دیکھا، وہ بار بار اپنے دبلے پتلے، کانپتے ہاتھوں سے سر پر چادر جماتی اور جسم پر لپیٹتی تھی۔ اسکی چادر کسی زمانے میں سفید ہوگی مگر اب گِھس کر ہلکی سرمئی سی ہوچکی تھی۔ پائوں میں عام سی ہوائی چپل اور ہاتھ میں سبزی کی تھیلی تھی۔ میڈیکل اسٹور والے نے خودکار انداز میں خاتون کی دوائوں کا بل اٹھایا اور بولا۔

'980 روپے'۔ اس نے خاتون کی طرف دیکھے بغیر پیسوں کے لیے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ خاتون نے چادر میں سے ہاتھ باہر نکالا اور مُٹھی میں پکڑے, مڑے تڑے، 50 روپے کے دو نوٹ کائونٹر پر رکھ دئیے۔ پھر سر جھکالیا۔اب دکاندار نے سر اٹھا کر عورت کو دیکھا اور بولا۔

'بقایا ؟'۔ اس کی آواز اچانک دھیمی ہوگئی تھی۔ بالکل سرگوشی کے برابر۔ بوڑھی عورت سر جھکائے اپنی چادر ٹھیک کرتی رہی۔

شاید دو سیکنڈز کا سناٹا ہوا مگر ان دو سیکنڈز میں ہم سب کو اندازہ ہوگیا کہ عورت کے پاس دوائوں کے پیسے یا تو نہیں ہیں یا کم ہیں اور وہ کشمکش میں ہے کہ کیا کرے۔ دکاندار نے اچانک سر جھٹکا اور کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر، تیزی سے عورت کی دوائوں کا ڈھیر، تھیلی میں ڈال کر آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔

'اچھا اماں جی۔ شکریہ'۔

بوڑھی عورت کا سر بدستور جھکا رہا۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے تھیلی پکڑی اور کسی کی طرف دیکھے بغیر دکان سے باہر چلی گئی۔ ہم سب اسے جاتا دیکھتے رہے۔

میں حیران تھا کہ 980 روپے کی دوائیں اس دکاندار نے صرف 100روپے میں دے دی تھیں۔ اس کی فیاضی سے میں متاثر ہوا تھا۔

جونہی وہ باہر گئی، دکاندار پہلے ہمیں دیکھ کر مسکرایا۔ پھر کائونٹر پر رکھی پلاسٹک کی ایک شفاف بوتل اٹھالی جس پر لکھا تھا

 

'ڈونیشنز فار میڈیسنز'

یعنی دوائوں کے لیے عطیات

 

اس بوتل میں بہت سارے نوٹ نظر آرہے تھے۔ زیادہ تر دس اور پچاس کے نوٹ تھے۔ دکاندار نے تیزی سے بوتل کھولی اوراس میں سے مٹھی بھر کر پیسے نکال لیے۔ پھر جتنے پیسے ہاتھ میں آئے انہیں کائونٹر پر رکھ کر گننے لگا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ یہ کیا کام شروع ہوگیا ہے مگر دیکھتا رہا۔

دکاندار نے جلدی جلدی سارے نوٹ گنے تو ساڑھے تین سو روپے تھے۔

اس نے پھر بوتل میں ہاتھ ڈالا اور باقی پیسے بھی نکال لیے۔

اب بوتل بالکل خالی ہوچکی تھی۔ اس نے بوتل کا ڈھکن بند کیا اور دوبارہ پیسے گننے لگا۔ اس بار کُل ملا کر ساڑھے پانچ سو روپے بن گئے تھے۔

اس نے بوڑھی عورت کے دیے ہوئے، پچاس کے دونوں نوٹ، بوتل سے نکلنے والے پیسوں میں ملائے اور پھر سارے پیسے اٹھا کر اپنی دراز میں ڈال دئیے۔

پھر مجھ سے آگے کھڑے گاہک کی طرف متوجہ ہوگیا۔

'جی بھائی'۔

نوجوان نے، جو خاموشی سے یہ سب دیکھ رہا تھا، ایک ہزار کا نوٹ آگے بڑھا دیا۔ دکاندار نے اس کا بل دیکھ کر نوٹ دراز میں ڈال دیا اور گِن کر تین سو تیس روپے واپس کردیے۔

ایک لمحہ رکے بغیر، نوجوان نے بقایا ملنے والے نوٹ پکڑ کر انہیں تہہ کیا۔ پھر بوتل کا ڈکھن کھولا اور سارے نوٹ اس میں ڈال کر ڈھکن بند کردیا۔ اب خالی ہونے والی بوتل میں پھر سے، 100 کے تین اور دس کے تین نوٹ نظر آنے لگے تھے۔ نوجوان نے اپنی تھیلی اٹھائی, سلام کیا اور دکان سے چلا گیا۔

بمشکل ایک منٹ کی اس کارروائ نے میرے رونگھٹے کھڑے کردئیے تھے۔ میرے سامنے، چپ چاپ، ایک عجیب کہانی مکمل ہوگئی تھی اور اس کہانی کے کردار، اپنا اپنا حصہ ملا کر، اسکرین سے غائب ہوگئے تھے۔

صرف میں وہاں رہ گیا تھا جو اس کہانی کا تماشائی تھا۔

'بھائی یہ کیا کیا ہے آپ نے؟'۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں پوچھ بیٹھا۔'یہ کیا کام چل رہا ہے؟'۔

'اوہ کچھ نہیں ہے سر'۔ دکاندار نے بے پروائی سے کہا۔'ادھر یہ سب چلتا رہتا ہے'۔

'مگر یہ کیا ہے؟۔ آپ نے تو عورت سے پیسے کم لیے ہیں؟۔ پورے آٹھ سو روپے کم۔ اور بوتل میں سے بھی کم پیسے نکلے ہیں۔ تو کیا یہ اکثر ہوتا ہے؟'۔

میرے اندر کا پرانا صحافی بے چین تھا جاننے کے لیے کہ آخر واقعہ کیا ہے۔

'کبھی ہوجاتا ہے سر۔ کبھی نہیں ہوتا۔ آپ کو تو پتا ہے کیا حالات چل رہے ہیں'۔ دکاندار نے آگے جھک کر سرگوشی میں کہا۔'دوائیں اتنی مہنگی ہوگئی ہیں۔ سفید پوش لوگ روز آتے ہیں۔ کسی کے پاس پیسے کم ہوتے ہیں۔ کسی کے پاس بالکل نہیں ہوتے۔ تو ہم کسی کو منع نہیں کرتے۔ اللہ نے جتنی توفیق دی ہے، اتنی مدد کردیتے ہیں۔ باقی اللہ ہماری مدد کردیتا ہے'۔

اس نے بوتل کی طرف اشارا کیا۔

'یہ بوتل کتنے دن میں بھر جاتی ہے؟'۔ میں نے پوچھا۔

'دن کدھر سر'۔ وہ ہنسا۔'یہ تو ابھی چند گھنٹے میں بھرجائے گی'۔

'واقعی'۔ میں حیران رہ گیا۔ 'پھر یہ کتنی دیر میں خالی ہوتی ہے؟'۔

'یہ کبھی خالی نہیں ہوتی سر۔ اگر خالی ہوجائے تو دو سے تین گھنٹے میں پھر بھر جاتی ہے۔ دن میں تین چار بار خالی ہوکر بھرتی ہے۔ شکر الحمدللہ'۔ دکاندار نے اوپر دیکھ کر سینے پر ہاتھ رکھا اور بولا۔

'اتنے لوگ آجاتے ہیں پیسے دینے والے بھی اور لینے والے بھی'۔ میں نیکی کی رفتار سے بے یقینی میں تھا۔

'ابھی آپ نے تو خود دیکھا ہے سر'۔ وہ ہنسا۔'بوتل خالی ہوگئی تھی۔ مگر کتنی دیر خالی رہی۔ شاید دس سیکنڈ۔ لیکن ابھی دیکھیں'۔ اس نے بوتل میں پیسوں کی طرف اشارہ کیا۔

'پیسے دینے والے کون ہیں؟۔

'ادھر کے ہی لوگ ہیں سر۔ جو دوائیں خریدنے آتے ہیں، وہی اس میں پیسے ڈالتے ہیں'۔

'اور جو دوائیں لیتے ہیں ان پیسوں سے، وہ کون لوگ ہیں؟'۔ میں نے پوچھا۔

'وہ بھی ادھر کے ہی لوگ ہیں۔ زیادہ تر بوڑھے، بیوائیں اور کم تنخواہ والے لڑکے ہیں جن کو اپنے والدین کے لیے دوائیں چاہیے ہوتی ہیں'۔ اس نے بتایا۔

'لڑکے؟'۔ میرا دل لرز گیا۔'لڑکے کیوں لیتے ہیں چندے کی دوائیں؟'۔

'سر اتنی بے روزگاری ہے۔ بہت سے لڑکوں کو تو میں جانتا ہوں ان کی نوکری کورونا کی وجہ سے ختم ہوگئی ہے'۔ اس نے دکھی لہجے میں کہا۔ 'اب گھر میں ماں باپ ہیں۔ بچے ہیں۔ دوائیں تو سب کو چاہئیں۔ تو لڑکے بھی اب مجبور ہوگئے ہیں اس بوتل میں سے دوا لینے کے لیے۔ کیا کریں۔ کئی بار تو ہم نے روتے ہوئے دیکھا ہے اس میں سےلڑکوں کو پیسے نکالتے ہوئے۔ یقین کریں ہم خود روتے ہیں'۔ مجھے اس کی آنکھوں میں نمی تیرتی نظر آنے لگی۔

'اچھا میرا کتنا بل ہے؟'۔ میں نے جلدی سے پوچھ لیا کہ کہیں وہ میری انکھوں کی نمی نہ دیکھ لے۔

'سات سو چالیس روپے'۔ اس نے بل اٹھا کر بتایا اور ایک ہاتھ سے اپنی آنکھیں پونچھیں۔ میں نے بھی اس کو ہزار کا نوٹ تھمایا اور جو پیسے باقی بچے، بوتل کا ڈھکن کھول کر اس میں ڈال دیے۔

'جزاک اللہ سر'۔ وہ مسکرایا اور کائونٹر سے ایک ٹافی اٹھا کر مجھے پکڑا دی۔

میں سوچتا ہوا گاڑی میں آبیٹھا۔

غربت کی آگ ضرور بھڑک رہی ہے ۔

مفلسی کے شعلے آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔

مگر انہی آسمانوں سے ابابیلوں کے جھنڈ بھی، اپنی چونچوں میں پانی کی بوندیں لیے، قطار باندھے اتر رہے ہیں۔

خدا کے بندے اپنا کام کررہے ہیں۔

چپ چاپ۔ گم نام۔ صلے و ستائش کی تمنا سے دور۔

اس یقین  کے ساتھ کہ خدا دیکھ رہا ہے اورمسکرارہا ہے کہ اس کے بندے اب بھی اس کے کام میں مصروف ہیں۔

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

***************


No comments:

Post a Comment