Pages

Tuesday, 7 December 2021

Ghazal by Irum Naz

 

 غزل


شاعرہ:- ارم ناز(کھنڈہ، صوابی)


میں ارمانوں کے گمنام شہر میں ماری جاؤں گی
میں کسی طلسماتی پہر میں ماری جاؤں گی

نہ ہوگا ساتھ کوئی اپنا سوائے تنہائی کے
میں خاموشیوں کے سنسان قہر میں ماری جاؤں گی

میں طوفانِ نوح کی زد میں آئی ہوئی ناتواں کشتی
مجھے معلوم ہے میں جذبات کی لہر میں ماری جاؤں گی

وہ شخص ساحر ہے کر لیتا ہے بس میں اپنے
میں اک لمحہ گر ٹہری تو اس کے سحر میں ماری جاؤں گی

راستے پُرخار ہے یوں ضد نہ کر ساتھ چلنے کی
میری مان تم اپنے گھر میں ٹہر، میں ماری جاؤں گی

موت کا کوئی خاص وقت کہاں معین ہے
نہ ہوئی نصیب بوقتِ فجر تو میں ظہر میں ماری جاؤں گی

نہ موجود مہلت ہے نہ ہے خواہش اب جینے کی
سو عین ممکن ہے کہ میں اسی دہر میں ماری جاؤں گی 

موسموں کے حسن اثرانداز نہیں ہوتے بیزار طبعیتوں پر
ہو گی بہار مگر میں اپنی ذات کی کُہر میں ماری جاؤں گی 

خدا کے حوالے کر اے سنگدل ماہیوال نہ دیں سہارا مٹی کا
گھڑا اگر جو ٹھوٹ گیا تو میں نہر میں ماری جاؤں گی

نہ بنا جذبوں کو اذیت بھری قید، خدارا محتاط رہ
وگرنہ میں تمہاری حبس بھری مِہر میں ماری جاؤں گی



No comments:

Post a Comment