Pages

Monday, 26 April 2021

Giri hui aurat Afsana by Syeda Rida Muntha Hamdani

  گری ہوئی عورت

از قلم

سیدہ ردا منتہا ہمدانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ہاہاہاہا ہاہاہاہا !

اتنے اونچے قہقہے پر علی اس ٹولے کی طرف متوجہ ہوا تھا۔

بیوقوف عورت میری اینجوائے منٹ کو محبت سمجھ رہی ہے۔۔۔

اسی ٹولے میں سے ایک لڑکے کی آواز ابھری تھی۔

علی کا دل کانپ کر رہ گیا۔

آخر ایک اور بنتِ حوا اپنا مذاق بنوا رہی ہے۔علی دل ہی دل میں کڑھنے لگا۔

یہ شام کا وقت تھا ، علی چہل قدمی اور تازہ ہوا کی غرض سے گھر کے قریبی پارک میں چلا آیا۔ذرا جو سانس لینے کے لئے رکا تو ساتھ ہی بلد و بانگ قہقہہ اسکی سماعت سے ٹکرایا تھا۔

جب علی نے اپنے دائیں جانب نگاہیں دوڑائیں تو کچھ آوارہ لڑکوں کا ٹولہ وہاں موجود تھا۔گھاس پر آڑے ترچھے  لیٹے وہ لڑکے بے ہنگم سی ہنسی ہنس رہے تھے موضوع بحث کوئی لڑکی تھی۔

ارے سالی پیچھے ہی پڑ گئی ہے دو بول محبت کے جو بول دو عورت خود کو نجانے کونسی ریاست کی شہزادی سمجھنے لگتی ہے

علی پر تو مانو گھڑوں پانی پڑ گیا تھا۔مرد کے اس روپ پر اسے چنداں حیرت نہیں ہوئی جو عورت کو محض کھلونا سمجھتے ہیں کیونکہ آجکل کی عورت نے خود کو ایسے ہی پیش کر دیا ہے۔۔۔۔

 جو وقت گزاری کے لئے مردوں کی تسکین کا باعث بن رہی ہے۔۔۔۔۔

وہ سوچنے لگا

اسی اثناء میں اس لڑکے کا موبائل بجنے لگا۔

ہاں شہزادی بولو اپنے لہجے میں دنیا بھر کی مٹھاس سموتے ہوئے وہ شخص بولا،

علی وہاں قریب پڑے بنچ پر ٹک سا گیا ، نا چاہتے ہوئے بھی وہ یہ تماشا دیکھنے پر مجبور تھا۔۔۔۔۔۔

ارے ارے  تم رو کیوں رہی ہو۔۔۔!!!

میں اب ٹھیک ہوں بس تمہاری آواز سن لی مانو جسم میں جان آ گئی ہو۔۔۔۔۔۔

دل کرتا ہے تمہاری گود میں سر رکھ کر لمبی تان کر سو جاؤں کبھی۔۔۔۔۔

چاہے اسکے بعد یہ آنکھ نہ کھلے ابدی نیند سو جاؤں اتنی سی دل نادان کی تمنا ہے

بولتے  ہوئے ساتھ والے لڑکے کو آنکھ ماری تھی اور دوسرے دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ پر تالی بجا کر ہنس پڑے۔۔۔۔

ایک منٹ جان من ذرا ابو کی کال آ گئی ہے لوفرانہ انداز میں بولتے ہوئے فون کام سے ہٹا کر اس نے بگڑے ہوئے تیوروں سے اپنے آوارہ دوستوں کو دیکھا تھا

سالے الو کے پٹھے ذرا دھیما نہیں ہنس سکتے۔ابھی اسکو آواز چلی جاتی ہاتھ آئی مچھلی اگر پھسل جاتی

ہاہاہاہا تو بھی کمینہ کہیں بھی چالو ہو جاتا ہے ابے اب بس کر ۔

باقی سب اس گفتگو پر ہنسنے لگے۔

یار تو بڑا گرا ہوا ہے ہر ٹائم ہی چالو رہتا ہے

دیکھ اب تو زیادہ کر رہا ہے گرا ہوا مرد کو کہا جاتا ہے مگر عورت بھی کم گری ہوئی نہیں جو اپنی اندھا دھند تعریف پر سدھ بدھ کھو دیتی ہے۔ارے سالی چیز کیا ہے۔پیار کے دو شبدوں پر خود کو کسی اور دنیا کا تصور کرنے لگتی ہے

علی خود سے نظریں چراتے ہوئے وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا کیونکہ مزید اخلاق سے گری ہوئی گفتگو سننے کی اب اس میں تاب نہ تھی

گری ہوئی عورت ہک ہا....!!!

اس نے لمبی سانس لی تھی۔اگر عورت خود کو یوں پیش کرے گی تو گری ہوئی عورت ہی کہلائے گی۔مردوں کا کیا ہے وہ اس طرح کے القابات افورڈ کر سکتے ہیں مگر ایک بار جو عورت گر گئی تو یہ معاشرہ اسکو گرا ہوا سمجھ کر اپنے قدموں تلے روند کر گزر جائے گا۔چند گری ہوئی عورتوں کی وجہ سے ہر باکردار عورت بدنام ہے اور چند  گرے ہوئے مرد بھی تمام مردوں پر کالا دھبہ ہیں۔

گو کہ اکثریت میں عورت کے جذبات خالص ہی ہوتے ہیں مگر کہیں کیا خوب پڑھا تھا

جس پر اعتبار کر کے تم اپنے محبت لٹا دیتی ہو اے بنت حوا

وہ مردوں میں بیٹھ کر تمہاری ذات کو موضوع بنا کر قہقہے لگاتا ہوگا

علی سوچوں میں ڈوبا ہوا گھر کے راستے پر گامزن تھا۔۔۔۔۔۔۔

**********************


No comments:

Post a Comment