Pages

Monday, 12 October 2020

Bila unwan article by Sidra Ghaffar

 عنوان۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پتہ ہے آج عنوان کیوں نہیں لکھا ہم نے۔۔کیونکہ آج کے الفاظوں کو آپ میں سے بہت لوگوں نے دل کے تھیلے میں بند کر کے اس کونے میں رکھ دینا ہے جھاں آپکا آنا جانا بہت ھی کم ہوتا ہے یا بھولے سے اگر اس کونے میں آبھی جاؤ تو ناک منہ چڑھا کے واپس پلٹ جاؤگے تو میں بھلا کیوں اس تھیلے پہ ایسا نام نصب کروں کہ آپ مجبور ہو کہ پڑھو۔۔مجبور کبھی نہیں کرتے ہر کام دل سے ہوتا ہے اور ہم چاہتے کہ ہر لفظ دل سے پڑھا جاۓ اس لیے ہم عنوان کے جھمیلے میں نہیں ڈالیں گے ۔۔۔

جس طرح ایک اوپر پرواز کرتے جہاز کو لینڈ کرنے میں وقت لگتا ہے۔۔جس طرح زندگی کو قوس قزح بنانے میں وقت لگتا ہے ۔۔۔جس طرح بچے سے نوجوان بننے میں وقت لگتا ہے۔۔اسی طرح حیوان سے انسان بننے میں بہت وقت لگتا ہے۔۔۔

 آج کل ہر طرف نفسہ نفسی کا عالم ہے۔۔ہر کوئی دوسرے سے بہترنظر آنے کی تگ ودو میں لگا ہے۔ہر کوئی منہ پہ اچھا اور دل میں منافقت لیے بیٹھا ہے۔۔۔ہر ایک ہوس کا پجاری بنا بیٹھا ہے حتیٰ کہ بچے سے بڑے تک اور یہ ایک شرم اور ڈوب مرنے کا مقام ہے۔۔ہم انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں رہے۔۔کبھی دل کے آئینے کو بھی دیکھ لینا چاہیے سچ اور جھوٹ کا ہھت خوب وضاحت کرتا ہے۔۔

مگر اس آئینے کو دیکھنے کا حوصلہ کسی کسی میں ہی ہوتا ہے۔کوئی اس آئینے میں دیکھ کر خود کو پہچان لیتا ہے اور کچھ لوگ پہچان کےانجان بن جاتے ہیں۔۔۔اور یہیں وہ گناھوں کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔۔کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ ہم کیوں انسان کہلائے جاتے ہیں ہم میں انسانیت تو ہے نہیں بس زبان ہے جو ایک ناگ کی طرح ہر وقت پھن پھیلائے ہوئے ہے۔۔جسے جو کھانے کے لئیے دے ذرا سی چونک یا مجبوری پہ اسے ہی لفظوں کےجانلیوا زہر سے موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔۔۔اس کے علاؤہ کیا ہے ،،

اور افسوس ہوتا کہ ہم اتنے بےحس پڑھے لکھے ان پڑھ معاشرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں جہاں سچ ایک جھوٹ ہے اور سچ۔ بولنے پہ واحیات القابات اور گالیوں سے نوازہ جاتا ہے۔۔ہر طرف بے حیائی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔۔دکھ اس بات کا ہے کہ اتنی مظبوط جڑیں حق سچ تعلیم یا پرہیز گاری کی نہیں ہیں جتنی مظبوط جڑیں کھوکھلی انا بےحیائی اور منافقت کی ہیں۔۔۔اس سب کا ذمہدار کون ہے۔۔کیاکوئی پیدا ہوتے ہی زانی تھا یا تھی ۔۔کیا کوئی ماں کی کوکھ سے ہی جرم سیکھ کے آیا ہے۔۔۔

نہیں۔۔۔۔

ایسا اسے معاشرے نے بنایا ہے۔۔اس معاشرے نے بنایا ہے جو بھرے بازار میں حوا کی بیٹیوں پہ اٹھنے والے ناریباالفاظ کی تردید نہیں کرتا۔۔یہ اس معاشرے کا قصور ہے جس میں جب بیٹی گھر سے باہر نکلتی ہے تو غیرت مند باپ اور بھائی اور ماں یہ نہیں دیکھتی کہ کیا ھماری بچی ڈھکی ہوئی ہے کہ کوئی اس پہ بول نہ سکے۔۔۔ماں یہ تو نہیں جانتی کہ کسی چوڑاہے پہ کھڑا اسکا غیرت مند بیٹا ایک چادر میں لپٹے وجود پہ نازیبا الفاظ کی بوچھار کر رہا تھا۔۔جناب مت بھولیے یہ دنیا مکافات عمل ہے جو بو گے وہی کاٹو گے۔۔

مگر انتہائی افسوس کی بات ہے کہ سب اپنی آنکھوں پہ جھوٹ اور خوش فہمی کی پٹی باندھ کے بیٹھا ہے کہ ہم تو مسلمان ہیں ہم تو بخشی امت ہیں سیدھا جنت میں جائیں گے کوئی ہم سے حساب کتاب نہیں ہوگا جو کرتوت ہم اس جہاں کر کے جا رہے۔۔اوہ بھائی کوئی تو انکی منافق اور جھوٹی نفسیات کو کچلے یا کچلنے کی کوشش ہی کرے کوئی بتائے کہ وہ جہالت وتنزلی کی طرف رواں دواں ہیں وہ بھول رہے ہیں کہ جنت ملنا اتنا آسان نہیں ہے پہلے اس جہاں کو اپنے اچھے اعمال اور اچھے اخلاق سے جنت بنانا پڑتا ہے تب جا کے اس جہاں کی جنت ملے گی۔۔سمجھ نہیں آتی کہ کیسے اتنے بڑے بڑے جرم کر کے سکون کی نیند سو لیتے ہو کہ کوئی اسکا حساب لینے والا نہیں ہے کیسے بھول گئے ہو کہ جنکی اولاد ہو انکی ایک غلطی پر انہیں سزا دی گئی اور اس جنت سے باہر نکال دیا جس کے تم لوگ ہزاروں سنگیں گناہ کر کہ خواہش مند ہو۔۔۔

انھوں نے نجانے کتنا عرصہ توبہ کی ۔۔اور تم لوگ جو گناہ پہ گناہ کئے جاتے ہو کہ اسکی کوئی پکڑ نہیں ہے۔۔یا پھر ایک دفعہ توبہ کر لی اور دوبارہ گناہ کر لیا۔۔سب نے اپنی زندگی کو ایک مزاق اور کھلونہ بنا کے رکھ دیا ہے۔۔

انکی مثال ایک مکڑی کے جالے جیسی ہے وہ مکڑی جو جانتی ہے کہ اسکا گھر بہت کمزور ہے اگر تیز ہوا کا جھونکا بھی آیا تو اسکی محنت اڑا لے جائے گا توڑ دے گا ۔۔بنتا بھت پیارا ہے مگر کھوکھلا ہوتا ہے۔۔۔انسان بھی اب مکڑی سے بھی بدتر بن گیا ہے یہ بھی اپنی جھوٹی انا اور شان و شوکت کے اونچے محل بنا کے بیٹھا ہے  مگر بات پتہ کیا ہے اسکی بنیادیں بھی کھوکھلی ہیں۔۔

اسکی بنیادوں میں جھوٹ کا سریا پڑا ہے،منافقت کے پتھر پڑے ہیں،فحاشی و بدکرداری کی مٹی پڑی ہے،جھوٹی انا اوربےادبی کا سیمنٹ لگا ہے اورکفروشر اور دھوکہ فراڈ کا لینٹر ڈالاہے۔۔۔

یہ بنیادیں کیسے مضبوط ہو سکتی ہیں ان نام نہاد انسان کے محلوں کی۔۔۔

بات بس اتنی ہے کہ ہم اب کچھ سن نہیں سکتے ہاں سنا سکتے ہیں کسی کے کردار کی دھجیاں بھرے بازار اڑا سکتے ہیں اور کوئی ہماری اصلیت کا ایک حرف بھی بولے تو ہمیں دنیا جھاں کی تمیز یاد آجاتی ہے۔۔بار بار کہوں گی دنیا مکافات عمل ہے جو گڑھا کسی کے لیے کھودو گے اسکی گہرائی کا اندازہ آپ کو بھی اسی جھاں میں ہوگا ہر راستے میں گڑھے آپکا مقدر بن جائیں گے۔۔۔

تو خود کو مکمل کیجیے وہ مکمل کیسے کرنا ہے آپ پہ منحصر ہےیا تو جھوٹی انا میں جیو اور رسوائی کو گلے لگاؤ یا پیار کے دو بول بولو مٹ کے رہو اور دنیا کی نظر میں بھی اچھے بنو اور اس واحدوپاک اعلیٰ وارفع ذات کی نظر میں بھی اعلیٰ مقام بناؤ کیونکہ لوٹ کہ تو اسی کی طرف جانا ہے چاہے آج یا چاہے کل پھر کیا منہ دکھاؤ گے۔۔۔

جانتی ہوں یہ باتیں کسی کہ لیے بس الفاظ کسی کے لیے مزاق اور کسی کے لیے شائد ضمیر کی آواز ہو۔۔تو براۓ مہربانی اپنے ضمیر کی آواز سنیں اور اچھا طرزِ زندگی اپنائیں۔۔۔اور اچھی پاک زندگی کا چناؤ صرف آپ خود کر سکتے ہو اور کوئی آپکا خیرخواہ نہیں ہے یہ معاشرہ تو غلاظت سے بھر چکا ہے۔۔اپنا دامن صاف آپ کو خود رکھنا پڑے گا ۔۔گندگی کے چھینٹوں سے بچاؤ آپ کو خود کرنا پڑے گا۔۔ورنہ اس غلاظت و گندگی کی نظر کرنے والے جگہ جگہ پڑے ہیں آپ کی نظر بھی انکی دنیا کی طرف اٹھی تو رنگیں خواب دکھا کہ اس گندگی کا بادشاہ آپکو بنا دیا جائے گا۔ ۔تاہم خود بھی غلاظت سے بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں ۔۔

مت بھولیں کہ توبہ کا در ہر وقت کھلا رہتا ہے مگر سچی توبہ کا۔۔

 اپنے من دی تے بو نئیں جاندی۔

عطردی خوشبومیں ونڈی جاواں۔ ۔

ایویں تےمن دی بو نئیں او جاندی۔۔

جےمیں سچےرب نوں ناں مناواں۔

طالبِ دعا۔۔سدرہ غفار۔۔


No comments:

Post a Comment