Pages

Monday, 4 May 2020

Andheri raat ka charagh by Rida Bashir Article


اندھیری رات کا چراغ
۔    


                                                                                                                       "تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہ سوچنے کی بھی۔تم نے  یہ سوچا بھی کیسے کہ میں تمہیں اسکی اجازت دونگا"۔وہ غصے سے چیخ رہے تھے۔اس نے سر جھکا کر کہا "ابا جان!میں فیصلہ کر چکا ہوں مجھے میڈیکل میں نہیں جانا میں تبلیغی جماعت کے ساتھ جاوں گا"وہ غصے سے شعلہ بیانی کرتے ہوئے مخاطب ہوئے کہ"وہ رہا باہر کا دروازہ۔آج سے ہمارا تمہارا کوئی تعلق نہیں۔
تو جناب!یہ گھر سے بے دخل ہونے والا نوجوان آجکے مشہور مذہبی سکالر"مولانا طارق جمیل صاحب"تھے۔انہیں گھر سے نکالنے والے انکے والد محترم جو ایک بڑے زمیندار تھے۔راجپوت خاندان کا چشم و چراغ بغیر کچھ سوچے سمجھے گھر سے بے گھر ہو گیا۔وہ کیا سوچ کر اتنا بڑا فیصلہ کر گیا۔کس کے بھروسے پر۔کچھ عرصہ قبل مجھے بھی کسی نے کہا تھا کہ"ردا اللّٰہ تمہارا ایسے بازو پکڑے گا تمہیں سمجھ بھی نہیں آئےگی"لیکن مجھے بات سمجھ نہیں آئی تھی۔مولانا کا ذکر کر رہی تھی کہ کسے معلوم تھا کہ یہ انسان لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو مشرف با اسلام کرے گا۔کسے معلوم تھا کہ 500 بااثر مسلمانوں کی فہرست میں اسکا نام با رہا شامل کیا جائے گا۔لیکن یہ بات بھی کسے معلوم تھی کہ یہ حلاوت اور مٹھاس بھرے لہجے والا انسان براہ راست نشریات میں ایک معمولی صحافی کے ہاتھوں سچ بولنے پر ذلیل ہو گا۔اور کہا جاتا ہے کہ میڈیا میں جھوٹ کی بنیاد رکھنے والا ہی وہ شخص ہے جو بہت مظلوم بنا ہوا تھا۔ایک بہت ہی قابل اور مایہ ناز صحافی نے کہا ہے کہ "قابل محترم جناب میر صاحب میرے ساتھ کسی بھی نشست میں بیٹھ جائے میر صاحب کی ایک ہزار سے زائد خبریں جھوٹی ثابت کروں گا صحافت میں جھوٹ کی بنیاد ہی میر صاحب نے رکھی"لیکن میں حیران ہوں میر صاحب کے مظلوم ہونے پر۔سوشل میڈیا پر ایک مضحکہ خیز پوسٹ پرھی آپ سب کی پیش خدمت ہے کسی صاحب نے لکھا تھا کہ "اس سال حج نہیں ہو رہا تو کیا میر صاحب کو کنکریاں مار کر مذہبی فریضہ ادا کر لے"؟
ایک بات جو ذہن کے پردوں پر باد ہا سر اٹھاتی ہے کہ "کیا جھوٹ کو جھوٹ کہنا گناہ ہے"یہ بات میں آپ اور پوری دنیا جانتی ہے کہ میڈیا جھوٹا ہے اور بہت جھوٹا ہے۔تو مولانا کی بات پر اتنا بھڑکنے کی تو ضرورت نہیں تھی۔انکے سچ کہنے اور حق پر ہونے کے باوجود بھی معافی مانگ لینے پر انکی عزت اور قدر میں اور اضافہ ہو گیا۔لوگ انکے گرویدہ ہوگئے۔انکے والد کو آج ان پرصحیح معنوں میں فخر ہوگا۔کہ انکے ایک فیصلے کے انکار پر آج بہت سے لوگ صحیح راستے پر ہیں۔شاید وہ اتنی انسانیت کی خدمت ڈاکٹر بن کر نا کر پاتے جتنی ایک عالم دین بن کر کر دی۔ذہن کی وہ گتھی تبھی سلجھ گئی کہ واقعی "جب میرا رب بازو پکڑتا تو فوراً کچھ سمجھ نہیں آتی۔کبھی کبھی گھر والوں کی مرضی کے خلاف جا کر کیا گیا فیصلہ پوری زندگی بدل دینے کی طاقت رکھتا ہے۔


ردا بشیر،ظفروال


No comments:

Post a Comment