Pages

Saturday, 18 April 2020

Sunehri Joor By Saira Ghaffar



سنہری جوڑ
(سائرہ غفار)


اس نے پوچھا تھا:"اس کی صرف ماں مر گئی ہے یا باپ بھی مرگیاہے"۔
اور وہ تو جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں کے مصداق اس کی شکل دیکھتا ہی رہ گیاتھا۔ اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا کیونکہ اس نے اپنی بیوی کے ساتھ شاید خو دکو بھی مردہ ہی تصور کرلیاتھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حبیبہ کی پیدائش کے تین گھنٹے بعد ہی الشبہ نے اس فانی جہاں سے کوش کر لیاتھا۔ اس نے اپنی بیٹی کو دیکھا اور دھیرے دھیرے اس نے آنکھیں موند لیں۔ حبیبہ اپنی ماں کے چہرے تو تک رہی تھی۔۔۔ ہاتھ پائوں چلا رہی تھی۔۔۔ مگر وہ تو وہاں تھی ہی نہیں۔۔۔۔ 
عباد نے اپنی بیٹی کو گود میں لیا تو اسے معلوم تھا کہ الشبہ زندگی اور موت کے درمیان جھول رہی ہے۔ بیٹی کو دیکھنے کی خواہش بھی اس نے جن مردہ سانسوں کے درمیان کی تھی عباد نے وہ سب منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔۔۔ یہ ان کی زندگی کے ساتھ گزارے دس سالوں کی پہلی خوشی تھی اور خوشی سے زیادہ یہ دکھ کی گھڑی بن گئی تھی۔
نرس نے الشبہ کی گود سے حبیبہ کو الگ کیا اور عباد کی بانہوں میں تھما دیا۔ عباد نے ایک نظر اپنی ننھی پری کو دیکھا اور اپنی زندگی کی شہزادی کو نم ناک آنکھوں سے دیکھا۔۔۔اسے سمجھ نہیں آرہاتھا کہ وہ خوش ہو یا روئے۔۔
خوشی سے آنسو بہائے یا غم کے۔۔۔
اس کی خوشی پہ اس کا دکھ دھیرے دھیرے غالب آرہاتھا۔
 اسے حبیبہ کی ہر آواز پہ غصہ آنے لگاتھا۔ چونکہ حبیبہ کی ماں نہیں تھی اس لئے اس کی زندگی میں کئی مسائل تھے۔ اس کے رونے کی آواز سن کر ہی عباد غصے سے لال پیلا ہونے لگتا تھا۔۔۔ برداشت کرتے کرتے جب تھک جاتا تو پھٹ پڑتا اور غصے سے چیخنے چلانے لگتا۔ اس کے والدین اور بہن بھائی اسے سمجھاتے کہ حبیبہ ابھی بہت چھوٹی ہے وہ یہ سب نہیں سجھتی وہ ماں کا لمس اور اس کی گود چاہتی ہے لیکن افسوس کہ وہ دونوں ہی ا سکو میسر نہیں ہیں۔
عباد اپنا سر پکڑ لیتا اور خود کو کمرے میں گھنٹوں تک بند کرلیتا۔ حبیبہ اب ایک ماہ کی ہوگئی تھی۔ عباد کبھی کبھار اس پہ کوئی اچٹتی سی نظر ڈال لیتا تو ٹھیک ورنہ وہ زیادہ تر دادی اور پھپھو کی ہی گود میں نظر آتی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عباد کا دوست حامد  عمرے سے واپس آیا تو اسے پتہ چلا کہ عباد کی بیوی کا رضائے الہٰی سے انتقال ہوگیاہے تو وہ تعزیت کے لئے اس کے پاس پہنچ گیا۔
سلام دعا خیرخیریت اور تعزیت ہوجانے کے بعد حامد نے عباد سے اس کی بیٹی کے بارے میں پوچھا تو اس نے روکھا سا جواب دیا۔ حامد بہت حیران ہوا اور اس نے جو کہا وہ سن کر عباد کے تو ہوش ہی اڑ گئے۔ اس نے پوچھا:"اس کی صرف ماں مر گئی ہے یا باپ بھی مرگیاہے"۔
اور وہ تو جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں کے مصداق اس کی شکل دیکھتا ہی رہ گیاتھا۔ اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا کیونکہ اس نے اپنی بیوی کے ساتھ شاید خو دکو بھی مردہ ہی تصور کرلیاتھا۔

"عباد تم جانتے ہو میں کچھ دنوں کے لئے جاپان گیاتھا۔ وہاں میں نے ایک چیز دیکھی تھی۔ ایک ٹوٹا ہوا کپ۔۔۔ ہمارے یہاں تو ایک کپ ٹوٹ جائے تو اسے ڈسٹ بن میں پھینک دیاجاتا ہے لیکن پتہ ہے وہاں کیا کرتے ہیں"؟

"کیا کرتے ہیں؟"اس نے بے دلی سے پوچھا۔

"وہ لوگ اس کپ میں سنہری جوڑ لگاتے ہیں۔ جسے وہ لوگ کینتسوگی کہتے ہیں۔ جب کوئی کپ بائول یا کوئی بھی برتن ٹوٹ جاتا ہے ناں تو وہ لوگ ا س کو بیٹھ کر اپنے ہاتھ سے جوڑتے ہیں اور جوڑ لگانے کے لئے وہ سونا استعمال کرتے ہیں۔ سنہری جوڑ لگنے کے بعد چیز خوب صورت لگنے لگتی ہے۔ وہ جوڑ اس ٹوٹی ہوئی شے کی قدر و قیمت میں بھی اضافہ کردیتا ہے اور اسے بے مول  سے انمول بنادیتا ہے۔   میں نے وہیں یہ بات سیکھی کہ انسان ٹوٹ جائے تو اسے مرجانے کی خواہش کرنے کے بجائے اپنے لئے کوئی سنہری جوڑ تلاش کرلینا چاہئے۔ میری بہن کو تو تم جانتے ہوناں"؟

عباد کی نگاہوں میں اس کی لنگڑی بہن کا خاکہ ایک دم سے ابھر آیا اور اس نے ہاں میں سر ہلادیا۔ 

"جب اس ایکسیڈنٹ میں اس کی ٹانگ کٹ گئی تھی تو وہ ہم سب کے لئے بہت مشکل وقت تھا۔ پھر اس نے اپنے لئے ایک سنہری جوڑ ڈھونڈ لیا۔ اس نے گھر میں ہی سلائی کا کام شروع کیا تھا۔ وہ اتنی مصروف ہوتی تھی کہ سر کھجانے کی فرصت نہیں ہوتی تھی اس کے پاس۔ سب لوگ اس کے اس کپڑے سلوانے آتے تھے۔ آج اس کا اپنا بوتیک ہے۔ اس نے اپنی وہ پرانی سلائی مشین اب بھی وہاں سجا کر کھی ہے کیونکہ وہ اس کا سنہری جوڑ ہےعباد کو خاموش دیکھ کر حامد نے اس کی طرف ھک کر سرگوشی کرتے ہوئے کہا:"تم بھی اپنی بیٹی کو اپنی زندگی کا سنہری جوڑ بنالو"؟

عبادنے اسے حیرت سے دیکھا تو وہ بولا:"چلتا ہوں۔ پھر ملتے ہیں"۔

عباد اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عباد گھر پہنچا تو اندر آتے ہی اس کی نظر حبیبہ پہ پڑی جو دادی کی گود میں سکون سے سو رہی تھی۔
اس کے کھلونے، فیڈر سب اردگرد بکھرا پڑا تھا۔ وہ ماں کے برابر بیٹھا اور دھیرے سے حبیبہ کے سر پہ ہاتھ پھیرنے لگا۔ اسے احساس ہوا کہ وہ بہت نازک ہے۔
اس کی ماں نے چونک کر اس کا بدلا ہوا روپ دیکھا لیکن کوئی سوال کئے بنا حبیبہ کو اس کی گود میں ڈال دیا۔
اس دن سے عباد نے اپنی مرمت کا کام شروع کردیا۔ اور حبیبہ نے اس کی ذات کی رفو گری کرتے ہوئےسنہری جوڑ لگانے شروع کر دئیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ختم شد

No comments:

Post a Comment