Friday, 1 July 2016

Eid ka jora by Jiya Zuberi



Eid ka jora by Jiya Zuberi 

is a social romantic novel by the writer 

She has written many stories and has large number of 

Fans waiting for her novels 

Here is her novel to read 




click on READ MORE  button to continue reading 















عید کا جوڑا
از
جیا زبیری


اماں! ابا آ گئے" سکینہ سلائی مشین پہ جھکی اپنے کام میں مگن تھی کہ اسے امینہ کی پر مسرت آواز سنائی دی. سکینہ نے مسکرا کے اپنی دس سالہ بیٹی کو دیکھا. اتنے میں اسلم ڈیوڑھی سے اندر داخل ھوا اس کا تھکن اور گرمی سے برا حال تھا. امینہ بھاگ کے کچن سے پانی لے آئی. وہ ادھر ہی اپنی بیوی کے پاس بیٹھ گیا. وہ بھی اپنا کام چھوڑ کے شوہر کی طرف متوجہ ھوئی. امینہ پَکھّی(کھجور کے پتوں سے بنا ہاتھ کا پنکھا) لے آئی اور جھلانے لگی۔ گھر کا کرایہ دینے کی کل آخری تاریخ ھے اور بجلی کا بل بھی آ گیا ھے". سکینہ نے تفصيل سے بتایا بجلی خود تو آتی نہيں ھے لیکن بل خوب سارا آتا ھے" اسلم نے ٹھنڈی سانس لیتے ھوئے کہا بجلی آتی تو ھے نہيں اماں پھر اتنے پیسے کیوں لے لیتے ھیں". امینہ نے معصومیت سے پوچھا. اس کے اس معصوم سوال پہ ان دونوں کے چہروں پہ ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
اسلم اور سکینہ کا تعلق غریب گھرانے سے تھا. دونوں میاں بیوی بہت محنتی اور خود دار تھے. اسلم دیہاڑی پہ سبزی منڈی میں پلے دار کی حیثیت پہ کام کرتا تھا۔دو سو روپے روزانہ کے حساب سے کماتا تھا. زائد کام کرنے پہ کبھی کبھی پانچ سو روپے بھی ھو جاتے تھے. اتنی مہنگائی کے دور میں اتنی سی انکم میں گزارا کرنا مشکل ہی نہيں ناممکن ہو جاتا ھے. سکینہ ایک سلیقہ شعار اور سگھڑ عورت تھی. اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے کو پاس پڑوس کے کپڑے سلائی کرتی تھی. ایک کمرے کے مکان کا کرایہ بجلی گیس پانی کے بل ادا کرنے کے بعد گھر کا خرچہ چلانے کے لیے کچھ بچتا ہی نہيں تھا. اسلم اور سکینہ کی شدید خواہش تھی کہ اپنی اکلوتی بیٹی کو اچھی خوراک اور اچھی تعلیم دینا چاہتے تھے۔
رمضان کی آمد آمد تھی. سکینہ نے سلائی کا کام بڑھا لیا. وہ سارا سارا دن سلائی مشین پہ جھکی رہتی تھی. امینہ بہت سمجھ دار اور خیال کرنے والی بچی تھی. ماں کے بہت سے کام وہ بناء کہے ہی کر دیتی تھی
امینہ کے ابا میں سوچ رہی تھی کہ اس عید پہ امینہ کو نیا جوڑا بنا کر دوں". رات کو صحن میں بچھی چارپائیوں پہ سونے کے لیے لیٹے تو سکینہ نے اسلم کو پکارا. وہ جو آنکهوں پہ بازو رکھے آنے والے دنوں کے لیے متفکر تھا ایک دم سے چونک گیا. "اری نیک بخت عقل تو ٹھکانے ہے نہ تیری . یہاں دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ھیں اور تجھے نئے کپڑے بنانے کی پڑی ھے". اسلم کو اچھا خاصا تاؤ آ گیا. "میں اپنے لیے نہيں صرف امینہ کی بات کر رہی ہوں". سکینہ نے منمناتے ہوئے کہا. "میں نہيں چاہتی کہ ہماری امینہ کسی چیز کو بھی ترسے". سکینہ نے دکھی لہجے میں کہا. اس کی نگاھوں میں شام کا منظر گھوم گیا جب سلائی کے لیے آیا ھوا زرق برق شرارے کو امینہ حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی. سکینہ کا دل کٹ کر رہ گیا تھا. وہ تب سے بے حد افسردہ اور دلگرفتہ تھی. "ہماری بیٹی بہت صابر اور شاکر ہے سکینہ کبھی بے جا فرمائش نہيں کی. میں اس کی یہ خواہش ضرور پوری کروں گا". ساری بات جان لینے کے بعد اسلم اپنی بیٹی کی خواہش پوری کرنے کو بے قرار ھو گیا۔ رمضان کے شروع ہوتے ہی مہنگائی آسمان سے باتيں کرنے لگی. دوکان دار ہر چیز مہنگے داموں فروخت کرنے لگے. سستا بازار کے نام پہ جگہ جگہ لوٹ بازار کھل گئے. رمضان رحمت کا مہینہ غریب عوام کے لیے زحمت بن گیا. کوئی بھی پھل دو سو روپے کلو سے کم نہيں تھا اور اسلم کی تو پورے دن کی کمائی ہی دو سو روپے تھی. وہ بے چارہ دل مسوس کر رہ جاتا۔ دونوں میاں بیوی سارا سارا دن کولہو کے بیل کی طرح کام میں جتے رہتے. وہ اپنی بیٹی کو ایک اچھی زندگی اور اچھی خوراک دینے سے قاصر تھے. ایک دن سلائی کے لیے آئے کپڑوں کو دیکھ کے امینہ نے ماں سے پوچھا " اماں کیا اس بار بھی عید پہ نیا جوڑا نہيں بنے گا". امینہ کے لہجے میں حسرتوں کا جہان آباد تھا. سلائی مشین پر جھکی سکینہ اپنی جگہ سُن رہ گئی. اس کی بہت صابر و شاکر بیٹی کی زبان پہ حسرت مچل ہی اٹھی. آخر تھی تو بچی ہی نہ. سکینہ نے ساری بات اسلم کے گوش گزار کی تو اس کی آنکهوں میں آنسو آ گئے. اس سوئی ہوئی امینہ کی پیشانی چوم لی. " میں اس بار اپنی بیٹی کو عید کا جوڑا ضرور دلاؤں گا سکینہ....میرے ہوتے میری بیٹی حسرتوں میں جیئے یہ میں کبھی برداشت نہيں کر سکتا". سکینہ نم آنکهوں سے مسکرا دی.باپ بیٹی کا رشتہ دنیا کا سب سے خوبصورت اور انوکھا رشتہ ہوتا ھے جس کا کوئی مول نہيں. جس کے آگے باقی سب رشتے معنوی اعتبار سے ہیچ ہو جاتے ہیں. ایک بیٹی کے لیے اس کا باپ اس کا پہلا پیار ہوتا ھے اور پہلے پیار کی شدت کبھی ماند نہيں پڑتی. رمضان کا مہینہ تیزی سے اختتام پذیر ہو رہا تھا اور بچت کے نام ان کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہيں تھی. ایسے میں سکینہ کپڑوں کی سلائی کا کام بڑھا رہی تھی. ان کے سر پہ ایک ہی دھن سوار تھی اپنی پیاری بیٹی کے لیے عید کا جوڑا لینے کی.  چاند رات تک سکینہ کو سلائی کے پیسے مل گئے. اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہيں تھا۔ عید کا چاند نظر آ گیا ابا" امینہ کے لہجے میں خوشيوں کی کھنکھ تھی. "آج میں اپنی دھی رانی کو عید کا نیا جوڑا دلاؤں گا". اسلم نے امینہ کو گود میں اٹھاتے ہوئے کہا. "سچ ابا". امینہ کی آنکهوں میں چمک سی ابھری. "ہاں پتر بالکل". اسلم نے امینہ کے گالوں کو چومتے ہوئے محبت سے کہا.اسلم اور سکینہ کے چہرے اندرونی خوشی سے جگمگا رہے تھے. "ابا چوڑیاں بھی". امینہ نے جھٹ فرمائش کی تو اسلم اور سکینہ بے ساختہ ہنس پڑے. "آج میں اپنی دھی کو سب کچھ لے کے دوں گا." اسلم نے بشاشت سے کہا. وہ تینوں خوشی خوشی بازار کے لیے چل پڑے. بازار میں تل دھرنے کی جگہ نہيں تھی. اس قدر رش تھا کی الامان. امینہ اور سکینہ گھبرا سی گئی. وہ حیران ہو کے وہاں آنے والوں کو دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ یہ وہی عوام ہے جو سارا سال مہنگائی کارونا روتی ھے. لوگ اسٹالوں پہ ٹوٹے پڑے تھے جیسے مفت میں مل رہا ہو سب۔
ہر دکاندار ان کی حیثیت سے زیادہ رقم بتاتا. معمولی سے معمولی چیز بھی مہنگے داموں بک رہی تھی وہ دونوں شدید پریشانی کا شکار ہو گئے. لیکن ان کی امید ابھی ٹوٹی نہيں تھی. "ہم کسی دوسرے بازار چلتے ہیں یہاں سب بہت مہنگا ھے." سکینہ کے لہجے میں موہوم سی امید تھی. جس نے اندھیرے میں جگنو کی طرح راستہ دکھایا. ابھی وہ رش سے باہر نکلے ہی تھے کہ امینہ کی نظر کون آئسکریم پر پڑی. اسلم اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھ کے سمجھ گیا اور مسکراتا ہوا بولا "میری بیٹی آئسکریم کھائے گی." امینہ نے خوشی سے اثبات میں سر ہلایا اور سڑک پار کر گیا. امینہ اور سکینہ کی نظریں سڑک پار آئسکریم لیتے اسلم پر تھی کہ اسی اثناء میں موٹرسائيکل سوار دو نا معلوم افراد اندھادھند فائرنگ کرتے ہوئے گزرے. فائرنگ سے بھگ دھڑ مچ گئی. لوگ بد حواس ہو کے ادھر اُدھر بھاگ رہے تھے. سکینہ فائرنگ کی زد میں آ کے موقع پر ہی جاں بحق ہو گئی. یہ سب کچھ ایک سیکینڈ میں کہ کوئی بھی سمجھ نہ پایا کہ ہوا کیا ھے. سڑک پار آئسکریم لیتا اسلم بدحواسی میں بھاگتا ہوا ایک گاڑی کی ٹکر سے شدید زخمی ہو گیا. لوگ اپنی مدد آپ کے تحت زخمیوں کو اسپتال پہنچا رہے تھے. ہر طرف چیخ و و پکارمچی تھی کہ کان پڑی آواز سنائی نہيں دیتی تھی. سکینہ سمیت نو افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور بارہ افراد زخمی تھے. امینہ سکتے کے عالم میں سب دیکھ رہی تھی. پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا تھا. بازار خالی کروا لیا گیا. میڈیا والے اپنے اپنے چینلز کی ریٹنگ بڑھانے کو بڑھ چڑھ کر حصّہ لے رہے تھے. اسلم زخمموں کی تاب نہ لاتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جا ملا. جو اپنی معصوم سی بچی کی ایک معصوم سی خواہش پوری کرنے کے لیے آیا تھا. پولیس نے نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی. ان نامعلوم افراد کے خلاف جو آج تک گرفت میں نہيں آئے کبھی پکڑے نہيں گئے. نجانے ہماری زندگيوں سے یہ نامعلوم افراد کب نکلیں گے. ان نامعلوم افراد نے کتنے ہی گھر اجاڑ دیے. کتنی ماؤں کی گودیں اجاڑی. کتنے ہی معصوم پھولوں کو یتیم کیا. یہ نامعلوم افراد ہمارے معاشرے کا ناسور بن چکے ہیں
السلام و علیکم ناظرین میں ہوں آپ کی ہوسٹ آپ کی دوست مروہ انعام. جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ آج عید کا پر مسرت دن ہے اور ہمارے چینل نے آپ کو ہمیشہ کچھ الگ اور نیا دکھایا ہے سو سٹے ٹیون ود اس وی ول بی رائٹ بیک(ہمارے ساتھ رہیے گا ہم ابھی واپس آتے ہیں)" "جی تو ناظرین ہم اس وقت بچوں کے ایک شیلٹر ہوم میں موجود ہیں جس کی اونر مسسز انجم ہیں. ان جیسے بہت سے مخیّر حضرات اس ملک میں موجود ہیں اور ایسے لوگ ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں. آئیے ہم آپ کو یہاں کے بچوں سے ملواتے ہیں جی تو ناظرین میرے ساتھ ہیں یہ پیارے پیارے معصوم فرشتوں جیسے بچے" پروگرام کی ہوسٹ شیلٹر ہوم کے بچوں میں گھِری بیٹھی تھی. اچانک اس کی نظر ایک کونے میں گم صم کھڑی بچی پر پڑی. "ارے یہ پری جیسی پیاری سی بچی اتنی چپ کیوں ہے" پروگرام ہوسٹ نے اس بچی کا ہاتھ پکڑ کے اس کا چہرہ اپنی طرف کیا. "یہ بچی اصل میں کل ہی آئی ہے اس کے پیرینٹس کل کے ہونے والے حادثے میں چل بسے" مسز انجم نے بچی کے بارے میں تفصيل سے آگاہ کیا. مروہ انعام کو گہرے تاسف نے گھیر لیا. اس نے بچی کو اپنی گود میں لے لیا
کیا نام ہے بیٹا آپ کا
"امینہ"
امینہ آپ کا جوڑا تو بہت پیارا ھے آپ اس میں بالکل پری جیسی لگ رہی ہو" اس کا اتنا کہنا تھا کہ امینہ کی آنکهوں سے آنسو بہہ نکلے. مروہ نے بے اختیار اسے گلے لگا لیا. "روتے نہيں ہیں بیٹا آپ کے ماما پاپا آپ کو دیکھ رہے ہیں آپ کو ایسے روتا دیکھ کر انہيں دکھ ہو رہا ہو گا نہ" مروہ نے اسے پچکارتے ہوئے کہا جس کا امینہ پر خاطر خواہ اثر ہوا. "کیا اماں ابا مجھے دیکھ رہے ہیں" امینہ نے بے یقینی سے پوچھا "ہاں نہ بالکل" اتنا سننا تھا کہ امینہ چھلانگ مار کے مروہ کی گود سے نکلی اور کیمرے کے سامنے کھڑی ہو گئی. " ابا دیکھ میں نے نیا جوڑا پہنا ھے تجھے بہت شوق تھا نہ مجھے نیا جوڑا لے کے دینے کا. اور دیکھ میں نے مہندی بھی لگائی ھے" امینہ نے اپنی ہتھیلیاں پھیلاتے ہوئے کہا "اور چوڑیاں بھی پہنی ہیں. اچھی لگ رہی ہیں نہ ابا" جوش سے امینہ کا معصوم چہرہ تمتما رہا تھا. اور وہاں موجود لوگوں کی آنکهيں اشکبار تھیں
نجانے اب تک کتنےامینہ جیسے معصوم بچوں سے دہشت گردی نے ان کے ماں باپ چھین لیے ہیں. آخر کب تک میرے وطن کے لوگ بے گناہ مارے جاتے رہیں گے. مانا کہ اس وطن کی بنیادوں میں لاکھوں شہیدوں کا لہو ھے کتنی ہی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت دفن ہے. لیکن کیا ہم اپنا مستقبل بھی لہو رنگ ہوتا دیکھتے رہیں. ہم کب تک جوان لاشے کندھوں پے اٹھاتے رہیں گے. اے صاحبِ اقتدار لوگوں ایوانوں میں بیٹھنے والوں اپنی نام نہاد سیاست کی خاطر کب تک اس ملک کی زمین کو لہو سے رنگتا دیکھتے رہو گے. آخر کب تک?" مروہ انعام کا بولتے بولتے گلا رندھ گیا. یہ سچ ہے کہ ایسے بہت سے سوالوں کا کوئی بھی جواب نہيں ہے صاحبِ اقتدار لوگوں کے پاس

ختم شد 

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...